ایسا کیا ہوا کہ نوازشریف نے عجلت میں پرویز مشرف کو ہٹا کر جنرل ضیاءالدین کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تھا؟ بڑا دعویٰ سامنے آ گیا

سابق صدر پرویز مشرف فائل فوٹو سابق صدر پرویز مشرف

سینئر صحافی اور کالم نگار بلال غوری نے اپنے یوٹیوب چینل پر پرویز مشرف کی جانب سے نوازشریف کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے واقعے پر ایک تفصیلی ویڈیو جاری کی ہے۔  جس میں انہوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے سری لنکا روانہ ہو نے کے بعد9 اکتوبر 1999 کو ایک تھری سٹار جنرل وزیراعظم نوازشریف سے ملنے آئے اور درخواست کی کہ انہیں فوج سے قبل از وقت ریٹائر کرتے ہوئے فوجی فرٹیلائزر کا سربراہ لگا دیا جائے تاکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اچھی زندگی گزار سکیں ۔ وزیراعظم نوازشریف دل ہی دل میں اس فوجی افسر کی سادگی پر حیران ہوئے لیکن خاموش رہے ، ان کا نام جنرل ضیاءالدین خواجہ ہے جو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی تھے ۔

 بلال غوری کا کہناتھا کہ وزیراعظم اس کے محض تین دن بعد پرویز مشرف کو ہٹا کر انہیں سپہ سالار بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے ، پرویز مشرف اور ضیاالدین خواجہ کا خیال ہے نوازشریف نے عجلت میں سپہ سالار تبدیل کرنے کا فیصلہ 12 اکتوبر کو ایک ہنگامی ٹیلیفون کال سننے کے بعد کیا ، وزیراعظم نوازشریف اس وقت رکن پارلیمنٹ جاوید علی شاہ کی دعوت پر ملتان نواحی شہر شجاع آباد میں جلسے سے خطاب کرنے پہنچے تھے ۔

وزیراعظم نوازشریف کے ترجمان صدیق الفاروق اپنی کتاب” سرخروکون “میں ٹیلیفون کال کی تردید کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں کال موصول ہوئی جس کے بعد ان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے ۔پرویز مشرف اپنی کتا ب ”آن دی لائن آف فائر “میں دعوی کرتے ہیں کہ12 اکتوبر کی شام تک” کو“ کا کوئی وجود نہیں تھا ،” کو“ دراصل نوازشریف نے فوج کے خلاف کیااور فوج کی طرف سے کارروائی جوابی ”کو “تھی لیکن لیفٹیننٹ شاہد عزیز اس وقت ڈی جی ایم او تھے اور حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے کی گئی کارروائی ان کی مرضی کے بغیر کے ممکن نہ تھی ، وہ پرویزمشرف کے اس موقف کو غلط قرار دیتے ہیں۔

لیفٹیننٹ شاہد عزیز اپنی کتاب ” خاموشی کہاں تک“ میں لکھتے ہیں کہ سری لنکا روانہ ہونے سے پہلے نہ صرف مارشل لاءلگانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں بلکہ جنرل پرویز مشرف ، چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز ، ڈی جی ایم او لیفٹیننٹ شاہد عزیز اور راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد کو حکومت کا تختہ الٹنے کے احکامات بھی جاری کر چکے تھے ۔متبادل منصوبے کے طور پر ہیلی کاپٹروں پر ایس ایس جی کمانڈوز کے ذریعے کارروائی کی تیاریاں بھی کی جا چکی تھیں ، نا صرف ٹرپل ون بریگیڈ کو تیاریوں کا حکم دیا جا چکا تھا بلکہ بریگیڈ ہیڈ کواٹر سے یونٹوں کو خطوط بھی لکھے جا چکے تھے ۔

بلال غوری کا کہناتھا کہ آرمی چیف جب بھی ملک سے باہر جانا ہوتاہے تو سینئر کور کمانڈر کو قائم مقام آرمی چیف بنایا جاتاہے ، کارگل آپریشن کے دوران جب پرویز مشرف چین گئے تو کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل سعید الظفر کو قائم مقاف آرمی چیف بنایا گیا اور سری لنکا جاتے ہوئے فوج کو بغیر کمانڈ کے چھوڑ دیا گیا کیونکہ کور کمانڈر پشاور کو قائم مقام آرمی چیف بنائے جانے کی صورت میں 12 اکتوبر کے غیر آئنی منصوبے پر عملدرآمد ممکن نہ تھا ۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے پرویز مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو اپنے سٹاف میں سے سب سے پہلے اپنے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال کو ااعتماد میں لیا ، بریگیڈیئر جاتی امراءپہنچے تو نوازشریف چہل قدمی کرتے ہوئے انہیں لان میں لے گئے ، وزیراعظم نے ملٹری سیکریٹر ی سے موبائل فون لے لیا اور ذاتی مہتم شکیل کو آواز دی ، اپنا اور ملٹری سیکریٹری کا فون اس کے حوالے کیا تاکہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں ریکارڈ نہ کی جا سکے۔

بریگیڈیئر جاوید اقبال نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورت میں کمانڈ ر ٹین کور لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد جوابی وار ضرور کرے گا ،مگر نوازشریف اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہ تھا۔نوازشریف نے گیارہ اکتوبر کو ابو ظہبی جانے کا فیصلہ کر لیا ، اس دورے کا مقصد بظاہر شیخ زید بن سلطان کی عیادت کرنا تھا لیکن واقفان حال بتاتے ہیں جاسوسی کے خدشات کے پیش نظر اندرو ملک مشاورت ممکن نہ تھی اس لیے ابو ظہبی جانے کا فیصلہ کیا گیا ،اب تک صرف یہ بات چار لوگوں کومعلوم تھی کہ جنر ل پرویز کو برطرف کرکے جنرل ضیاءالدین خواجہ کو بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ،اور ان چاروں کو ہی نوازشریف اپنے ساتھ لے گئے ،ان چار میں ڈی جی آئی ایس آئی ضیاءالدین خواجہ ، ملٹری سیکریٹری ، حسین نواز اور نذیر ناجی شامل تھے ، نذیر ناجی کو اس لیے ساتھ لے جایا گیا تاکہ مشرف کی برطرفی کے بعد وزیراعظم کے قوم سے خطاب کا ابتدائی مسودہ تیار کر سکیں ۔

وزیر اعظم کا خصوصی طیارہ شجاع آباد میں اتر تو تین لوگوں کو جہاز کے اندر ہی رکنے کہا گیا ، ان سے موبائل فون لے لیے گئے ،جن میں حسین نواز ، پرویز رشید اور نذیر ناجی شامل تھے ، جن کا مقصد قوم سے خطاب کے مسودے کو حتمی شکل دینا تھا ،واپس روانہ ہوتے وقت سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ ر افتخار علی خان اور پرنسپل سیکریٹری کو پیغام دیا گیا کہ وہ تین بجے چکلالہ ایئر پورٹ پر وزیراعظم سے ملیں ، جہاز لینڈ ہونے پر نوازشریف نیچے اترے تو سیکریٹری دفاع کو اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھا لیا ، سیکریٹری دفاع نے کہا کہ اگر آپ جنرل طارق پرویز کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ معاملہ ختم ہو چکا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے احکامات جاری ہو چکے ہیں ۔

نوازشریف نے کہا کہ آپ جنرل طارق پرویز کو بھول جائیں میں نے پرویز مشرف کو برطرف کرتے ہوئے ضیاءالدین کو آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کیاہے ، چوہدری افتخار یہ سن کر وہ ہکے بکے رہ گئے اور کہا سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ میں فیصلہ کر چکا ہوں ، چوہدری افتخار نے کہا کہ سر آپ نے کابینہ سے مشاورت کی ہے ؟ ، کم از کم چوہدری نثار اور شہبازشریف سے مشاورت کرلیں ۔نوازشریف نے کہا مشورے لینے کا وقت گزر چکا ہے ۔

نوازشریف نے وزیراعظم سیکریٹ پہنچ کر سیکریٹر ی دفاع کو کہا کہ پرویز مشرف کی معزولی اور ضیاءالدین خواجہ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کریں ، کچھ ہی دیر میں پرنسپل سیکریٹری سعید مہدی نے تحریری حکم نامہ تیار کر لیا تو نوازشریف منظوری لینے کیلئے سمری لے کر ایوان صدر چلے گئے ، صدر رفیق تارڑ نے معزولی کے احکامات دیکھنے کے بعد اس پر دستخط کر دیئے اور یوں پرویزمشرف سابق آرمی چیف ہو گئے اور نئے آرمی چیف ضیاءالدین خواجہ کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔

بلال غوری کا کہناتھا کہ پی ٹی وی کا عملہ یہ کمانڈ کی تبدیلی کے مناظر ریکارڈ کر چکا تھا ، پانچ بجے خبر نشر ہو گئی کہ پرویزمشرف کو ہٹاتے ہوئے لیفیٹننٹ جنرل ضیاءالدین کو آرمی چیف تعینات کر دیا گیاہے ، ، تاہم خبر نشر ہونے کے آدھے گھنٹے بعد ٹرپل ون بریگیڈ کا فوجی دستہ میجر کی قیادت میں پی ٹی وی کے دفتر میں داخل ہوچکا تھا ، اگر پرویزمشرف کی جوابی ”کو “کی بات درست ہوتی تو فوج کو نقل و حرکت کرنے میں کچھ وقت لگتا لیکن پرویزمشرف کے دعوﺅں کے برعکس اقتدارپر قبضہ کرنے کی تیاریاں پہلے سے ہی مکمل تھیں ۔

install suchtv android app on google app store