پاکپتن دربار کیس: نواز شریف نے غیرقانونی طور پر زمین منتقل کی، انکوائری رپورٹ

نواز شریف فائل فوٹو نواز شریف

 پاکپتن دربار اراضی منتقلی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف نے زمین غیر قانونی طور پر منتقل کی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پاکپتن دربار اراضی منتقلی کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران تحقیقات کے لیے قائم کی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ حسین اصغر نے انکوائری رپورٹ پیش کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ نواز شریف نے دربار کی زمین غیر قانونی طور پر منتقل کی تھی، 2015 میں دی گئی پہلی تفتیشی رپورٹ میں وزیراعلیٰ کو ذمہ دار قرار دیا گیا، تاہم 2016 میں دوسری رپورٹ بنا کر وزیر اعلیٰ کانام نکال دیا گیا۔

تاہم نواز شریف کے وکیل منور دوگل نے عدالت میں دلائل دیئے کہ نواز شریف نے جواب دیا تھا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم اینٹی کرپشن کو پرچہ درج کرنے کے لیے کہہ دیں۔

ساتھ ہی انہوں نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

جے آئی ٹی سربراہ حسین اصغر نے بتایا کہ ہجرہ شاہ مقیم اور دربار حافظ جمال کی زمین بھی دی گئی اور یہ ساری زمینیں ایک ہی دور میں نواز شریف نے دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان درباروں کی زمین 1986 میں الاٹ کی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیوں یہ زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی؟چوروں نے زمین لے کر آگے بیچ دی۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے تنبیہہ کی کہ تفتیش اور انکوائری ہوئی تو کوئی بچ نہیں پائے گا۔

حسین اصغر نے بتایا کہ پہلی تفتیشی رپورٹ 2015 میں دی گئی جس میں وزیراعلیٰ کو ذمہ دار قرار دیا گیا، بعد ازاں 2016 میں دوسری رپورٹ بنا کر وزیر اعلیٰ کا نام نکال دیا گیا۔

تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ اب وہ دور نہیں رہا، تیسری رپورٹ نہیں بنے گی۔

ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کس قانون کے تحت وقف زمین کا نوٹیفیکشن واپس لیا؟اور وقف پراپرٹی کو کیسے بیچ دیا گیا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ڈسٹرکٹ جج اور ہائیکورٹ نے کہہ دیا تھا کہ وقف زمین کا نوٹیفکیشن واپس نہیں ہوسکتا، کس قانون کے تحت وقف زمین کا نوٹیفیکیشن واپس لیا گیا؟

تاہم نواز شریف کے وکیل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ زمین واپسی کے نوٹیفکیشن کی تردید کی ہے۔

تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اب انکوائری رپورٹ آ چکی ہے۔

جے آئی ٹی سربراہ حسین اصغر نے بتایا کہ اُس وقت کے وزیراعلیٰ کے سیکریٹری نے تسلیم کیا کہ نوٹیفکیشن وزیراعلیٰ کے کہنے پر واپس ہوا۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے سابق سیکریٹری سے بھی تفتیش کی گئی ہے، جو 75 سالہ ضعیف شخص ہیں۔

سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت اور نواز شریف سے رپورٹ پر 2 ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

install suchtv android app on google app store