الیکشن کمیشن کی جانب سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ جاری ہونے سے قبل سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے دوسری مرتبہ وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اکثریتی فیصلے پر عمل کرنا ہو گا۔ مخصوص نشستوں پر اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس ختم ہو گیا ہے اور ایک ایسے موقع پر جب الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ جلد متوقع ہے، مخصوص نشستوں پر اکثریتی فیصلہ سنانے والے ججوں نے ایک اور وضاحت جاری کردی ہے۔
مخصوص نشستوں پر اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
اکثریتی فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے اپنی دوسری وضاحت میں کہا کہ تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن سے مختصر فیصلے پر الیکشن ایکٹ 2024 کی وضاحت طلب کی گئی تھی، الیکشن کمیشن کا موقف تھا مختصر فیصلہ ایسے قانون پر مبنی تھا جس میں ترمیم کی گئی ایکٹ کی دفعہ 66 اور 104 میں ترمیم کے ساتھ ساتھ سیکشن 104۔اے کا اضافہ بھی کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب تحریک انصاف کے مطابق سپریم کورٹ کا مختصر حکم آئینی دفعات کی تشریح اور نفاذ پر مبنی ہے لہٰذا الیکشن ایکٹ میں ترامیم مختصر فیصلہ پر اثرانداز نہیں ہوسکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کا مختصر فیصلہ جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن اس حوالے سے ہونے والی ترمیم کا پابند نہیں۔
اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اکثریتی فیصلے پر عمل کرنا ہو گا اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 12 جولائی کا فیصلہ غیر موثر نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ماضی سے اطلاق کو وجہ بنا کر فیصلہ غیر موثر نہیں ہو سکتا۔
عدالت عظمیٰ کے ججوں نے کہا کہ ہم تفصیلی فیصلہ آںے سے پہلے بھی ایک وضاحت جاری کر چکے ہیں اور ہم نے وضاحت کے لیے رجوع کرنے کا حق اس لیے دیا تھا کہ مختصر حکم نامے پر عملدرآمد میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
انہوں نے اپنی وضاحت میں کہا کہ چونکہ اب تفصیلی فیصلہ جاری ہو چکا ہے، لہٰذا اب کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہی اور تفصیلی فیصلے میں تمام تر قانونی و آئینی نکات کا احاطہ کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب چونکہ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی نے مزید وضاحت کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں اس لیے ہم ہم اب اتنی حد تک وضاحت کر دیتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے ہمارا حکم نامہ غیر مؤثر نہیں ہوتا۔
اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں نے کہا کہ ہمارے مختصر فیصلے کے جاری ہونے کے بعد ترمیم فیصلے کو غیر مؤثر نہیں کر سکتی اور الیکشن کمیشن بغیر مزید وضاحت طلب کیے ہمارے حکم نامے پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے۔
وضاحت میں کہا گیا کہ رجسٹرار آفس اس وضاحتی حکم نامے کی کاپی الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کو بھیجے۔
واضح رہے کہ واضح رہے کہ 12 جولائی کو اپنے مختصر حکم میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بتایا تھا کہ فیصلہ 8/5 کے تناسب سے دیا گیا ہے، عدالت عظمیٰ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلہ دیا تھا۔
جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی تھی۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد 6 اگست کو قومی اسمبلی سے اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تھا اور اس ترمیمی ایکٹ کو 9 اگست کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔
بعدازاں مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے پہلا وضاحتی حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں اور الیکشن کمیشن فیصلے پر فوری عملدرآمد کرے۔
یہ وضاحت اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ آج ہی مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا ہے جبکہ حکومت بھی 26ویں آئینی ترمیم کے لیے اتفاق رائے کے لیے کوشاں ہے البتہ اسے ترمیم کی منظوری کے لیے درکار نمبر پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔