آئینی مسودے پر مکمل اتفاق رائے ہو جائے تو ایوان میں پیش کریں گے: خواجہ آصف

خواجہ آصف فائل فوٹو خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کے معاملے میں کوئی سیاست شامل نہیں لیکن پھر بھی اس کو سیاسی رنگ دیا گیا تاہم آئینی مسودے پر مکمل اتفاق رائے ہوجائے گا تو ایوان میں پیش کیا جائے گا۔ رکن پارلیمنٹ کے حیثیت سے آئین ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کی سربلندی کے لیے کام کریں جب کہ قانون سازی اور آئین کی حفاظت کرنا ہمارا حق ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، اس دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند دنوں سے آئینی ترامیم سے متعلق ایک ڈرافٹ گردش کرتا رہا میڈیا میں بھی آیا اور مختلف سیاسی رہنماؤں کے ملاقاتوں میں بھی زیر بحث آیا۔

انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کے معاملے میں کوئی سیاست نہیں، ترامیم آئین میں عدم توازن دور کرنے کے لیے ہے، رکن پارلیمنٹ کے حیثیت سے آئین ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کی سربلندی کے لیے کام کریں جب کہ قانون سازی اور آئین کی حفاظت کرنا ہمارا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرافٹ حکومتی اتحادکی دانست میں آئین کو بہتر کرنےکی کوشش تھی، اس دستاویز میں آئینی عدالت سے متعلق تجویز ہے، یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوگا بلکہ بہت سے جمہوری ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اس پر تجاوز کرلے گی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اتفاق رائے سے یہ منظور ہو، کابینہ سے منظوری تک آئینی ترمیم کی کوئی حتمی شکل سامنے نہیں آنی تھی اور جب اس پر اتفاق ہو جائے گا تو اس ایوان میں بھی ضرور آئے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا کہ مجھے انتہائی افسوس ہے جس طرح آج اس پارلیمان کی بے توقیری کی گئی اور اس پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، جس طرح پارلیمنٹ کو مذاق بنایا گیا میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے تمام ایم این ایز کی بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں، خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمت سے ان حالات کا مظاہرہ کرتا ہوں اور محمود اچکزئی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں وزیر قانون کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کوئی مسودہ نہیں ہے، اگر وزیر قانون کو پتہ نہیں، حکومت کے نمائندوں کو پتہ نہیں تو یہ ڈرافٹ کہاں سے آیا؟

اسد قیصر نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ افسوس پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو زرداری پر ہے، جن کو سارا علم تھا، اس میں 56 ترامیم پیش کی گئی تھیں، یہ بتائیں کہ آرٹیکل 8 اور 99 اس میں ترامیم کا کہا گیا تھا، یہ تو بنیادی شہری حقوق کو بھی سلب کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم کوئی اس ملک کے دشمن ہیں، ہم چاہتے ہیں جو جوڈیشل ریفامرز آئیں اور لوگوں کو سہولت ملے، ہم نے پہلے بھی اس پر بات کی ہے، اگر ترامیم لانی ہے تو بالکل لائیں مگر اس پر بحث کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ رات کی تاریکی میں چھٹی والے دن چوری کی طرح یہ ترامیم پاس کرنی ہوتی ہے، کیا اس اسمبلی کے کوئی رولز ہیں یا نہیں، آپ نے اگر اس قسم کی قانون سازی کرنی ہے تو سب سے پہلے اس کو پبلک کریں، اس پر تمام بار ایسوی ایشن کو اعتماد میں لیں، اسمبلی میں بحث کرائیں، اگر اس طرح کی جانے والی قانون سازی کو چوری کہا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں جتنا جھوٹ بولا گیا وہ تاریخ کا بدترین جھوٹ بولا تھا، اس پارلیمنٹ کے پاس اخلاقی جواز نہیں کیوں کہ یہ فارم 47 کی پیداوار ہے لیکن پھر بھی کرنا ہے تو ہمارے 6 سے 7 لوگوں کو اغوا کیا گیا اور انہیں پنجاب ہاؤس میں رکھا گیا ہے، کیا قانون سازی اس طرح ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں سے سوچ رہا تھا اگر اس طرح ذلت اور زور وظلم سے قانون سازی ہوتی ہے تو ہمارے لیے اس طرح پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے موت بہتر ہے۔

install suchtv android app on google app store