چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے اور اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن کیا ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد عوام تک اپنی کارکردگی دکھانا تھا۔
نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا 9 روز بعد مجھے بطور چیف جسٹس ایک سال ہو جائے گا، میرا سب سے پہلا کام فل کورٹ اجلاس بلانا تھا جو 4 سال سے نہیں ہوا تھا، ہم نے عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد عوام تک اپنی کارکردگی دکھانا تھا، پہلے عوام کو وہی معلوم ہوتا تھا جو ٹی وی چینلز دکھاتے تھے یا یوٹیوبر بتاتے تھے۔
ان کا کہنا تھا یقینا ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے، دیکھا جائے کیا پہلے سے بہتری اور شفافیت آئی ہے یا نہیں، پہلے تو بینچ بنتے ہی علم ہو جاتا تھا کہ فیصلہ کیا ہو گا، اب مجھے خود پتہ نہیں ہوتا کہ دائیں بائیں بیٹھے ججز کیا فیصلہ کریں گے، کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہو گا؟ اگر نہیں پتہ چلتا فیصلہ کیا ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ شفافیت آئی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا پہلے چیف جسٹس جمعرات کو کازلسٹ کی منظوری دیتے تھے، پہلے کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کا تھا، اب چیف جسٹس کا کازلسٹ میں تبدیلی کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے، اب کازلسٹ چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی، مقدمات کی سماعت مقرر کرنے کا اختیار رجسٹرار کا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن کیا ہوگا، یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، لوگوں نے 30، 40 سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے، کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے، اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔