نیب ترامیم کیس: عدالت نے اٹارنی جنرل سے دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کردی

سپریم کورٹ فائل فوٹو سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کی چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے دلائل طلب کرتے ہوئے خواجہ حارث کو باقی دلائل تحریری صورت میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطاء بندیال نےکہا ہے کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے۔

سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پرسماعت ہوئی۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اورجسٹس منصورعلی شاہ بینچ کا حصہ ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا خواجہ حارث صاحب اجازت ہو تو مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھوں؟

چیف جسٹس نے کہا کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اورچیزدیکھی،ایم ایل اے کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کردی گئی ہے،اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی۔

چیف جسٹس نے کہا آپ نےکل کہا تھا کہ ایم ایل اے کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے۔قانون میں تواس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔

آپ نے پارلیمنٹ میں ہی ان باتوں پرلڑنا تھا جسے آپ چھوڑ کرچلے گئے،جسٹس منصور علی شاہ کا چیئرمین پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ ۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا آپ نے نشست سے استعفیٰ دینا تھا تو اسے کسی اور کے لیے خالی کرتے۔

خواجہ حارث نے کہا انہوں نے نشست سے استعفیٰ دیا تھا وہ منظور نہیں کیا گیا،اثاثوں سے متعلق شق بھی نیب کی سیکشن 9 میں ہے،سیکشن 9 میں اس کی تعریف کرپشن کے طور پر کی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریماکس دئیے کہ ماضی میں کسی اثاثے کی مالیت کیا تھی یہ قیاس آرائی ہی ہو سکتی ہے،کوئی پراپرٹی ڈیلر ہی کہہ سکتا ہے کہ یہ جائیداد کچھ برس قبل کتنی مالیت کی تھی،نیب کچھ توکنکریٹ شواہد لایا کرے اثاثوں کی اصل مالیت سامنے نہیں آئی۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا ایمنسٹی سکیم غیر قانونی طریقے سے حاصل جائیداد کو تحفظ نہیں دے رہی تھی،غیرقانونی طریقوں سے بنائے گے ان اثاثوں کو نیب ترامیم سے تحفظ دیا گیا۔

دوران سماعت نیب ترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی گئی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسارکیا کہ کیا نیب نے ایڈیٹڈ رپورٹ جمع کرا دی ہے؟،نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی نیب نے رپورٹ دے دی ہے۔

چیف جسٹس نے ریماکس دیتے ہوئے کہا آپ پبلک آفس ہولڈر کی حد تک کہہ سکتے ہیں،انہیں یہ تحفظ نہ دیا جائے،کاروباری افراد کے لیے تو تحفظ موجود ہونا چائیے۔خواجہ حارث بولے کاروباری لوگ بھی رشوت دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریماکس دئیے رشوت کا معاملہ سامنے آئے توبات الگ ہے،نیب قانون کا غلط استمال ہوتا رہا اس بات کوآپ بھی مانیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ارکان پارلیمنٹ نےاگرذاتی مفاد کے لیے قانون بنالیا ہے تواگلی باران کو ووٹ نہ دیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا جہموریت ایسے ہی کام کرتی ہے بلاوجہ پارلمیٹ پرشک کی ضرورت نہیں ہے،اداروں کواپنی اپنی حدود میں کام کرنے دیں،غیر ضروری مداخلت ٹھیک نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو ہم ایک چھٹی پر بھی نوٹس لے سکتے ہیں،دیکھنا یہ بھی ہوگا وہ چھٹی کس نے بھیجی،جسٹس منصورعلی شاہ نے ریماکس دیتے ہوئےکہا پارلیمنٹ کا فورم چھوڑ کرعدالت آنے سے نیک نیتی کا سوال تو آئے گا۔

خواجہ حارث نے کہا وہ ان کا سیاسی فیصلہ تھا وہ مستفعی ہونے کا حق رکھتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا لوگ اس لیے ملک چھوڑ جاتے ہیں جب روزگار کے مواقع ختم ہوجاتے ہیں،سیاسی طورپرمضبوط ہونا ہی ملک میں بقا کا لائسنس بن گیا ہے،لوگ کسی مقصد کے تحت ہی نمائندوں کو منتخب کرکے بھجتے ہیں، مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ آئین کے تحت اس ملک میں گورننس یقینی بنائیں گے۔

install suchtv android app on google app store