عمران خان نے منحرف اراکین سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان فائل فوٹو سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 20 منحرف اراکین قومی اسمبلی کی نا اہلی سے متعلق ریفرنس مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔

 ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے انتقال کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل چوہدری فیصل حسین نے 19 اراکین قومی اسمبلی کے خلاف درخواست دائر کی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں تین رکنی ای سی پی بینچ نے ایک متفقہ فیصلے میں نااہلی ریفرنسز کو مسترد کر دیا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے 20 منحرف اراکین قومی اسمبلی کے خلاف آرٹیکل 63 اے کی بنیاد پر کمیشن کو ریفرنس بھیجا گیا تھا، آرٹیکل 63 اےمنحرف اراکین کی نا اہلی سے متعلق ہے جو ان 20 منحرف اراکین پر نافذ العمل نہیں کیا گیا جنہوں نے گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران اپوزیشن کی حمایت کی تھی۔

 

درخواستوں میں سے ایک میں قومی اسمبلی میں موجودہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے حزب اختلاف کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ساتھ مل کر اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے انتہائی ’غدار اور بے وفا‘ طریقے سے کام کیا اور عمران خان کے خلاف 8 مارچ کے تحریک عدم اعتماد سے پہلے’ٹرن کوٹ‘ بن گئے ہیں۔

درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ راجا ریاض نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی اور قانون اور آئین کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے دیگر منحرف اراکین کے ساتھ انحراف کی مہم کی قیادت کی، جس سے جمہوریت، آئین، پارٹی اور سب سے بڑھ کر ان کے حلقوں اور عوام کو نقصان پہنچا۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد جب پارٹی کے دیگر تمام اراکین ملک کو ’حکومت کی تبدیلی‘ سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے تو راجا ریاض دوسرے اراکین کے ساتھ سندھ ہاؤس میں موجود تھے جہاں وہ مبینہ طور پر چھپ گئے تھے تاکہ ’انتہائی ناپاک انداز سےجمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کے اپنے شیطانی منصوبے کو انجام دیا جاسکے‘۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی مشکوک اور نقصان دہ پی ٹی آئی مخالف سرگرمیوں کا نوٹس لیتے ہوئے 19 مارچ کو شوکاز نوٹس جاری کیا لیکن جواب دہندہ (راجا ریاض) نے نوٹس کی ترسیل سے انکار کردیا۔

بعد ازاں غیر سنجیدہ جواب منسلک کردیا گیا جو اپیل کنندہ (پارٹی چیئرمین) کو کبھی موصول نہیں ہوا۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ اگر ایسے غیر آئینی اور غیر قانونی عمل کے خلاف عدالتی نوٹس سے گریز کیا جاتا ہے اور مدعا علیہ کو اسکاٹ فری جانے کی اجازت دی جاتی ہے تو یہ ملک میں قانون اور آئین کی عدم موجودگی کے مترادف ہوگا۔

اس میں مزید الزام لگایا گیا کہ مدعا علیہ پہلے اپنی نشست سے استعفیٰ دیے بغیر کسی دوسری پارلیمانی پارٹی سے اپنی وفاداری تبدیل کرکے پی ٹی آئی اور اپنے حلقے کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ عوام کے اعتماد کو دھوکہ دے کر اپنے حلف کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا۔

لہٰذا، اپیل کنندہ نے ضابطہ اخلاق کو پورا کرنے کے بعد، آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت مدعا علیہ کے خلاف اعلامیہ اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھجوایا جنہوں نے اسے چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ ای سی پی کا فیصلہ صوابدیدی، غیر قانونی، قانون سے خالی تھا اور اسے قانون اور آئین کے طے شدہ اصولوں کی توہین کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

درخواست گزار نے کہا کہ کہ کمیشن کا حکم منصفانہ ٹرائل کے طے شدہ اصولوں کے مطابق نہیں تھا اور مناسب عمل کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں جواب دہندگان کمیشن کے حکم کو معقول بنانے کے لیے وجوہات دینے میں ناکام رہے ہیں۔

اس طرح ای سی پی کا حکم آرٹیکل 63 اےکو مسترد کرنے کے مترادف ہے، جو انتہائی غیر معمولی طریقے سے انحراف، ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کی اجازت دیتا ہے۔

درخواست میں دلیل دی گئی کہ قانون اور آئین کا مقصد جمہوریت کو ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کی آلودگی سے بچانا ہے۔

تاہم ای سی پی آئین کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت اپنی قانونی ذمہ داری کی پاسداری کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

install suchtv android app on google app store