سندھ بار ایسوسی ایشن نے سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا

 سابق چیف جسٹس ثاقب نثار فائل فوٹو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس ایچ سی بی اے) اور سندھ سے تعلق رکھنے والے جوڈیشل کمیشن کے رکن نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) سے استدعا کی کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی صداقت اور تحقیقات کے لیے آزاد کمیشن کی تشکیل کی جائے۔

ایس ایچ سی بی اے کے صدر صلاح الدین احمد اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (سندھ) کے رکن سید حیدر امام رضوی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں ان واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو سزا سنائے جانے سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں مین اسٹریم میڈیا میں رپورٹ ہوئے تھے۔

ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے روبرو درخواست سماعت کے لیے مقرر کر دی ہے۔

درخواست میں آئی ایچ سی سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ ایک آزاد کمیشن کا تقرر کرے جس میں اعلیٰ عدلیہ کے اراکین یا (ر) ججز، قانونی ماہرین، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہوں جو کہ ’جامع انکوائری‘ کرے تاکہ ’سابق چیف کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کی تصدیق کی جا سکے‘۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کمیشن کو نواز شریف خاندان کی سزا سے پہلے اور بعد میں عدلیہ پر لگائے گئے واقعات/الزامات کی بھی تحقیقات کا اختیار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان سے لوگوں کی نظروں میں عدلیہ کی ساکھ اور آزادی ختم ہو رہی ہے۔

درخواست میں 28 اپریل 2017 کو اس وقت کے چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ان کے ساتھ فون پر بات چیت کے بعد لکھے گئے مراسلے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’اس وقت کے چیئرمین کو یو ایس اے کے ایک نمبر سے واٹس ایپ پر کال موصول ہوئی تھی جس میں کال کرنے والے نے کہا تھا کہ ہدایات ہیں کہ بلال رسول کا نام نئے پینل میں شامل کیا جائے۔

اس میں کہا گیا کہ جس پینل کا کالر حوالہ دے رہا تھا وہ عمران خان اور رشید احمد کی پٹیشن پر عدالت عظمی کی جانب 20 اپریل 2017 کو تشکیل دینی جانے والی جے آئی ٹی تھی۔

درخواست میں بیان کردہ ایک اور واقعہ سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے 21 جولائی 2018 کی تقریر تھی جس میں انہوں نے خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں پر ’عدالتی کارروائی میں ہیرا پھیری کرنے کا الزام لگایا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو نوکری سے برطرف کرنے سے پہلے کی تقریر کے بعد شوکاز نوٹس دیا گیا تھا۔

درخواست گزاروں نے 6 جولائی 2019 کو مریم نواز کے پریسر کو تیسرے واقعہ کے طور پر حوالہ دیا جس میں انہوں نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی جانب سے سابق وزیر اعظم کو 'زبردستی' سزا سنانے کا مبینہ ویڈیو اعترافی بیان جاری کیا۔

install suchtv android app on google app store