خواتین پارلیمنٹیرینز کو وٹس ایپ گروپس میں ایڈ کرکے ہراساں کیا جا رہا ہے: ناز بلوچ

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی ناز بلوچ فائل فوٹو پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی ناز بلوچ

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی ناز بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ بین الاقوامی نمبروں سے خواتین اراکین پارلیمنٹ کو وٹس ایپ گروپوں میں شامل کرکے ہراساں کیا جاتا ہے۔

ناز بلوچ کا کہنا تھا کہ مجھ سمیت دیگر اراکین کی طرح سینیٹر روبینہ خالد کو بھی انٹرنیشنل گروپ نے ایڈ کیا جبکہ سینیٹر روبینہ خالد نے گروپ میں لکھا کہ وہ سائبرکرائم ونگ میں رپورٹ کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ رویبنہ خالد کی جانب سے رپورٹ کرنے کی بات پر ایک خاتون پولیس اہلکار کی تصویر گروپ میں دی گئی اور اس پر غلط زبان استعمال کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مختلف مقامی اور بین الاقوامی نمبروں سے بھی گروپس میں ایڈ کرکے کال کی جاتی ہے، ہمارے نام لے کر غلط زبان استعمال کی جاتی ہے۔

پی پی پی رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم نے کئی گروپ چھوڑ دیے اور نمبرز بھی بلاک کرا دیے ہیں۔

انہوں نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سے مطالبہ کیا کہ وٹس ایپ کو خط لکھا جائے اور اس سے آگاہ کیا جائے کہ بین الاقوامی نمبروں سے آنے والی کالز روکیں کیونکہ پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل نمبرز پر ان کی دسترس نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وٹس ایپ پر نہ صرف پارلیمنٹیرین بلکہ دیگر افراد کو بھی ایڈ کرکے غلط زبان استعمال کی جارہی ہے، جو ہراسمنٹ کے ذمرے میں آتا ہے اور اس طرح ہراساں کیا جارہا ہے، ہم اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے۔

ناز بلوچ نے کہا کہ سائبر کرائم ونگ میں ایک بھی خاتون نہیں ہے، اور متاثرہ خواتین اپنے مسائل مردوں کے سامنے پیش کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی ہیں، مطالبہ کیا کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں خواتین کو بھی بھرتی کر لیا جائے تاکہ خواتین کی مشکل دور ہوجائے۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں اراکین پارلیمنٹ نے اہم انکشافات کیے تھے اور پی پی پی رکن اسمبلی ناز بلوچ نے کہا تھا کہ مجھے ایک بین الاقوامی نمبر سے وٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وٹس ایپ گروپ میں اور بھی خواتین اراکین سینیٹ اور قومی اسمبلی کو شامل کیا گیا اور گروپ میں غیر اخلاقی اور نازیبا پیغامات بھیجا شروع کر دیے گئے۔

ناز بلوچ نے کہا تھا کہ خواتین سینٹرز اور اراکین اسمبلی نے اس گروپ کو فوری طور پر چھوڑا اور سوچا کہ ہم ایف آئی اے سے رابطہ کرتے ہیں کہ کیا معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ وٹس ایپ نمبر پاکستان میں ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ کو وٹس ایپ نمبروں سے اگر اس طرح ہراساں کیا جاتا ہے تو پھر عام لوگوں کا کیا حال ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نیا ٹرینڈ چلا ہے کہ بین الاقوامی وٹس ایپ نمبر سے لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونیکشین (پی ٹی اے) حکام نے بتایا تھا کہ ہم موبائل فون کی لوکیشن معلوم کر سکتے ہیں لیکن وٹس ایپ کی لوکیشن معلوم نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی پاکستانی نمبر لےکر وٹس ایپ پر اکاونٹ بنائے، سم توڑ دے اور باہر ملک سے جا کر اس وٹس ایپ کو استعمال کرے تو ہم اس کو بھی ٹریس نہیں کر سکتے۔

عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ہم پلیٹ فارم سے رابطہ کرکے کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے کو دیکھا جائے، لیکن سوشل میڈیا پیلٹ فارم، ریگولیٹر سے کہیں زیادہ صارفین کے مسائل پر انہیں جواب دیتے ہیں۔

پی ٹی اے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ہم بھی اس کیس کی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو شکایت کریں گے لیکن وہ ہم سے زیادہ جلدی صارفین کی شکایت کو دیکھیں گے۔

پارلیمانی کمیٹی کے رکن علی جدون نے کہا کہ ہم نے بار بار پی ٹی اے کو کہا کہ غیر قانونی سمز کا حل نکالیں لیکن پی ٹی اے غیر قانونی سمز روکنے میں ناکام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی سمز بیچنے والے جگہ جگہ اسٹالز لگا کر سمز بیچتے ہیں۔

install suchtv android app on google app store