چینی کے مناسب متبادل کی تلاش ضروری

چینی کا زیادہ استعمال صحت کے لیے مضر ہے۔ دوسری جانب مصنوعی میٹھے کے بھی متعدد نقصانات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے سائنسدان ایک ایسے متبادل میٹھے یا چینی کی تلاش میں ہیں، جو قدرتی ذرائع سے ہی بنائی گئی ہو۔

جرمنی کی برین نامی کمپنی کے محققین کسی ایسی چینی یا میٹھے کی تلاش میں ہیں، جو قدرتی ذرائع سے حاصل ہو اور صحت سے متعلق سخت معیارات پر بھی پورا اترے۔ اس جرمن کمپنی کے لیے تحقیق کرنے والی خاتون ڈاکٹر کاتیا ریڈل کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم ایسا میٹھا تیار کرنے کی کوشش میں ہیں، جو بالکل چینی کی طرح ہو یا اس کی کم مقدار ہی مٹھاس کو تیز کر دے لیکن ذائقہ ویسا ہی رہے، جیسا ہم پسند کرتے ہیں۔‘‘

مسئلہ یہ ہے کہ مصنوعی میٹھے اکثر ویسا ذائقہ فراہم نہیں کرتے، جیسا ہم چاہتے ہیں۔

اسپارٹيم کی مثال ہی لیجیے، اگرچہ مختلف ریگولیٹری ادارے اسے محفوظ قرار دے چکے ہیں لیکن ناقدین کے مطابق یہ بینائی میں کمی اور سر درد جیسے مضر اثرات کا باعث بنتی ہے۔ مصنوعی مٹھاس بلڈ شوگر پر اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ آپ میں میٹھی چیزوں کی خواہش میں بھی اضافہ کرتی ہے، جس سے آپ اسے مزید کھاتے ہیں۔ اس طرح مستقل بنیادوں پر یہ وزن میں کمی کی بجائے اضافے کا سبب بنتی ہے۔

یورپی یونین میں چینی کے سبھی منظور شدہ متبادل مصنوعی ہیں۔ سن دو ہزار گیارہ میں منظور کردہ اور پودوں سے حاصل ہونے والا اسٹیویا صرف ایسا قدرتی میٹھا ہے، جو امید کی کرن ہے لیکن اسے صرف محدود چیزوں میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر کاتیا ریڈل کے مطابق، ’’اسٹیویا ہر چیز کے ساتھ یکجا نہیں ہوتا۔ آپ کو دودھ سے بنی ایسی اشیاء کم ہی ملیں گی، جن میں اسٹیویا شامل ہو۔ کیوں کہ یہ ذائقے میں کمی لاتا ہے۔ ہم اسٹیویا سے بھی بہتر میٹھے کی تلاش میں ہیں۔‘‘

بہترین اور انسانی صحت کے لیے مناسب میٹھے کی تلاش میں سائنسدان انتہائی منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ اس جرمن کمپنی کے پاس ایک بہت بڑا ڈیپ فریزر ہے، جسے میٹھی اشیاء کا بینک کہا جا سکتا ہے۔ اس میں قدرتی مرکبات پر مشتمل وہ تمام نمونے رکھے گئے ہیں، جو مختلف پودوں اور پھپھوندیوں سے حاصل ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا بڑا ذخیرہ ہے، جس کے لیے نمونے دنیا بھر کے مختلف مقامات سے جمع کیے گئے ہیں۔ مستقبل کا کوئی بھی بہترین میٹھا، انہی سیمپل مرکبات میں سے ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر کاتیا ریڈل اس حوالے سے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’یہ ایسا ہی ہے، جیسے آپ چھپا ہوا خزانہ تلاش کر رہے ہوں۔ ہم ریوند یا مرچوں جیسے عام پودوں کو جانچتے ہیں تاکہ مٹھاس کا سبب بننے والے ان کے انفرادی اجزا کا جائزہ لیا جا سکے۔‘‘

دوسری جانب یہ تحقیق مہنگی بھی ہے اور وقت طلب بھی۔ ڈاکٹر کاتیا ریڈل کے بقول، ’’ کچھ مصنوعی میٹھے اچھے طریقے سے حل ہو سکتے ہیں۔ یہ مشروبات کے لیے بہترین ہیں۔ لیکن کچھ میٹھے ایسے ہوتے ہیں، جو اچھی طرح حل نہیں ہوتے لیکن ان کا ذائقہ اچھا ہوتا ہے۔ ایسے میٹھے مثال کے طور پر ٹافیوں اور چیونگم وغیرہ میں استعمال ہو سکتے ہیں۔‘‘

برین کمپنی تقریبا ساٹھ مصنوعی میٹھے تیار کر چکی ہے، جو مختلف اقسام کی مصنوعات میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ یہ پہلے ہی غذائی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیوں کو فراہم کیے جا چکے ہیں لیکن سائنسدان ابھی بھی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ یہ ایک دن کوئی ایسا بہترین میٹھا تلاش کر لیں گے، جو چینی کا متبادل بھی ہوگا اور انسانی صحت کے لیے اس کے اثرات بھی مضر نہیں ہوں گے۔

install suchtv android app on google app store