ہم موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ناکام ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دنیا موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ناکام ہورہی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتیرس نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی موجودہ وقت کا سب سے اہم مسئلہ ہے، جس میں ہم ناکام ہورہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اس رجحان کو مکمل طور پر بدلنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ مہینے پولینڈ میں پیرس موسمیاتی معاہدے میں پیش رفت کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ’مجھے امید نہیں ہے کہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کا ضروری حل تلاش کریں گے‘۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’ہمیں سیاسی دلچسپی اور ایسی حکومتوں کی ضرورت ہے جو یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ہمارے وقت کی اہم ترین ترجیح ہے‘۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیرس معاہدےسے دستبردار ہوچکے ہیں اور برازیل کے نئے صدر جائر بولسونارو بھی یہی ارادہ رکھتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ پیرس میں کیے گئے وعدے کافی نہیں تھے۔

انہوں نے ڈیوس سے فیس بک لائیو نشریات میں کہا کہ ’جو کچھ ہم نے پیرس میں اتفاق کیا اگر اسے مادی شکل میں ڈھالا جائے تو درجہ حرارت مزید 3 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا‘۔

انتونیو گوتیرس نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات اور غریب ممالک کے لیے مالی امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ان ممالک کی ضرروت ہے جو ثابت قدمی کے وعدے کر سکیں‘۔

ڈیوس میں ہونے والے اجلاس سے قبل کیے گئے عالمی اقتصادی سروے سے یہ اخذ کیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں موجود ڈبلیو ای ایف کے شرکا کی اہم ترین تشویش موسمیاتی تبدیلی خصوصاً موسم کی شدت میں اضافہ تھا۔

فرانسیسی کمپنی ٹوٹل کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) پیٹرک نے ڈیوس نے مضبوط سیاسی اقدام کے بغیر گرینر اکانومی (سبز معیشت) میں تبدیلی کے اقدامات پیش کیے۔

انہوں نے ڈیوس میں 'سی این بی سی' چینل نے کو بتایا کہ ’ہم گرین اکانومی کے لیے قابل تجدید ذرائع کی جانب نہیں دیکھ رہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم قابل تجدید ذرائع کی جانب اس لیے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ بجلی کی مارکیٹ کے لیے بہترین طریقہ ہے، لیکن اس کے لیے بھی قدرتی گیس اور دیگر توانائی کے ذرائع کی ضرورت ہوگی۔

خودکشی کا معاہدہ
تاہم ماحولیات کے حوالے سے سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ کمپنیاں اس حوالے سے خاطر خواہ کام نہیں کر رہیں۔

رواں ہفتے ڈیوس میں 16 سالہ سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھن برگ بھی شریک ہیں جن کی گزشتہ ماہ پولینڈ میں ایک دھواں دھار تقریر کے بعد دنیا بھر میں اسکول کے بچوں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف احتجاج کی ایک لہر نے زور پکڑا ہے۔

انہوں نے 'اے ایف پی' کو دیئے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ’کمپنیاں اس بات سے آگاہ ہیں کہ وہ کن بیش قیمت چیزوں کو کثیر رقم بنانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں‘۔

سابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے، جنہوں نے 2016 میں امریکا کے لیے پیرس معاہدے پر دستخط کیے تھے، کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی سے دستبرداری اور شکوک و شبہات کے اظہار کے باوجود 50 میں سے 38 امریکی ریاستیں اپنی موسمیاتی پالیسیوں پر عملدرآمد کر رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ پیرس معاہدہ ان امکانات کی بنیاد پر تھا کہ نجی سیکٹر بیٹریز اور سولر پینلز میں سرمایہ کاری کرے گا۔

جان کیری نے ڈیوس اور سی این بی سی میں کہا کہ ’اس سلسلے میں جو کیا جارہا ہے وہ کافی نہیں ہے اور یہاں تک کہ حال ہی میں کیٹووائس میں آپ نے دیکھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جو جنگ لڑی جارہی ہے وہ اس لیے ہے تاکہ یہاں ان کی موجودگی معقول ہو‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس صدی میں درجہ حرارت میں 4 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس سلسلے میں اکثر ممالک کی عدم دلچسپی بنیادی طور پر خودکشی کا ایک مشترکہ معاہدہ ہے‘۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بحث میں ایک چیز 'کاربن ٹیکس' بھی ہے جو حیاتیاتی ایندھن کی آلودگی کی قیمت کا ایک جزو ہے جس سے ان کے اضافی استعمال میں کمی آئے گی۔

یہ اقدام امریکا سمیت اکثر حکومتوں کی جانب سے ناپسندیدہ رہا ہے۔

تاہم کاربن ٹیکس کا خیال کلائمٹ لیڈرشپ کونسل کے اقدام کے تحت مقبول ہورہا ہے جسے 29 نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور فیڈرل ریزرو کے 4 سابق چیئرمین کی حمایت بھی حاصل ہے۔

گزشتہ ہفتے اس اقدام سے متعلق دستخط کنندگان نے ایک بیان میں کہا کہ ’کاربن ٹیکس، کاربن کے اخراج میں ضروری حد تک تیزی سے کمی کا بہترین طریقہ ہے‘۔

install suchtv android app on google app store