ذیابیطس دنیا بھر میں عالمی صحت ایک ایک بڑھتا ہوا بحران بنتا جا رہا ہے، جہاں تخمینوں کے مطابق اس وقت 589 ملین بالغ افراد (عمر 20–79 سال) اس مرض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، یعنی ہر 9 میں سے 1 بالغ شوگر کا شکار ہے، مزید اندازے بتاتے ہیں کہ 2050 تک یہ تعداد بڑھ کر 853 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان میں صورت حال خاص طور پر تشویش ناک ہے، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بالغوں میں ذیابیطس کی شرح پھیلاؤ 31.4 فی صد ہے، یعنی تقریباً 3 کروڑ 45 لاکھ افراد، جو شرح کے لحاظ سے پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس کے بوجھ والا ملک بناتا ہے۔
اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوشن آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں ذیابیطس او پی ڈی وزٹس اور داخل مریضوں کی دیکھ بھال کا بڑا حصہ بن چکا ہے، جہاں مریض بڑی تعداد میں پیچیدگیوں جیسے ڈایابیٹک فٹ، نیوروپیتھی اور گردوں کے مسائل کے ساتھ پیش ہوتے ہیں۔
یہ بڑھتا ہوا بوجھ مستقبل میں دستیاب اسپتال وسائل کے لیے شدید دباؤ کا باعث بن سکتا ہے، اندازہ ہے کہ پمز میڈیکل او پی ڈی میں تقریباً 10 ہزار یا اس سے زائد مریض ذیابیطس کے لیے باقاعدہ فالو اپ پر ہیں، اور یہ تعداد ہر ماہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔