یورپی ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد پتا لگایا ہے کہ امراض قلب کی قبل از وقت تشخیص کے لیے ایک سادہ اور عام بلڈ ٹیسٹ کار آمد ہو سکتا ہے، جسے عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
اس وقت امراض قلب کی بیماریوں کی تشخیص کے لیے متعدد طریقے اور ٹیسٹس موجود ہیں اور گزشتہ 60 سال سے ڈاکٹرز لپڈ پروفائل یعنی کولیسٹرول کے ٹیسٹ کو بھی امراض قلب کی تشخیص کےلیے اہم ٹیسٹ قرار دیتے آئے ہیں۔
لیکن اب ماہرین نے کولیسٹرول کے ہی ایک عام ٹیسٹ کو زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو امراض قلب کی متعدد پیچیدگیوں کی قبل از وقت تشخیص ممکن ہوگی۔
طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق یورپی ماہرین نے 2 لاکھ سے مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جو کہ امراض قلب میں مبتلا تھے۔
ماہرین نے تمام رضاکاروں کے بلڈ ٹیسٹ اور خصوصی طور پر کولیسٹرول کے ٹیسٹس پر توجہ دی اور دیکھنے کی کوشش کی کہ ایسی کون سی نشانی ہے جو سب مریضوں میں مشترک ہے۔
ماہرین نے تمام رضاکاروں کے ٹیسٹس کو 15 سال کے بعد بھی دیکھا اور پایا کہ جو مریض امراض قلب اور خصوصی طور پر دل کی شریانوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، ان کے کولیسٹرول میں ایک خاص طرح کی پروٹین کی زیادتی ہوجاتی ہے۔
ماہرین نے پایا کہ دل کی شریانوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے بیڈ کولیسٹرول میں (apoB) نامی پروٹین کی شرح زیادہ تھی اور مذکورہ شرح کی زیادتی ہی شریانوں میں مسائل کا سبب بنتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر ماہرین صحت کولیسٹرول کے ٹیسٹ میں مذکورہ پروٹین پر نظر رکھیں تو ہزاروں افراد میں امراض قلب کی بیماریوں کی قبل از وقت تشخیص ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ بیڈ کولیسٹرول میں پائے جانے والے پروٹین کی شرح میں اضافے کو آغاز میں ہی پکڑ کر علاج شروع کیا جائے تو امراض قلب سے بچا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ کولسیٹرول کو نہ صرف امراض قلب بلکہ فالج اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے لیے بھی خطرہ سمجھا جاتا ہے، کولیسٹرول دراصل خون میں موجود چکنائی ہوتی ہے جس کہ بڑھنے سے شریاںیں تنگ ہوجاتی ہیں۔
