ایک طویل اور منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ’کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی (سی ٹی) اسکین سے وقت سے قبل ہی ذیابیطس کا پتا لگایا جا سکتا ہے، اسکین سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں کس شخص میں ذیابیطس کے شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
غیر ملکی طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق جنوبی کوریا کے ماہرین نے 2012 سے 2015 کے درمیان سی ٹی اسکین کروانے والے 32 ہزار افراد کے اسکینز کا جائزہ لیا۔
جن افراد کے اسکینز کا جائزہ لیا گیا تھا، ان کی اوسط عمر 45 سال تھی اور زیادہ تر افراد نے ذیابیطس کی وجہ سے اسکین نہیں کروائے تھے۔
ماہرین نے اسکینز کا جائزہ لینے کے بعد 7 سال بعد رضاکاروں کی صحت کا جائزہ لیا اور معلوم ہوا ہے کہ جن افراد کے سی ٹی اسکینز میں کچھ خراب اشارے ملے تھے، ان میں ذیابیطس کا امکان بڑھ گیا۔
ماہرین نے سی ٹی اسکینز کو دیکھ کر چند مسائل اور پیچیدگیوں کی فہرست بنائی، جن کے اسکین میں ہونے سے مذکورہ شخص میں مستقبل میں ذیابیطس کے شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جن افراد کے سی ٹی اسکینز میں اندرونی اعضا میں چربی (visceral fat) جلد میں چربی یا موٹاپا (subcutaneous fat)جگر اور شریانوں میں چربی اور کیلشیم کی مقدار زیادہ ہو، ان میں مستقبل میں ذیابیطس کے شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق خصوصی طور پر جگر میں چربی، شریانوں میں کیلشیم کی اضافی مقدار، مسلز اور دیگر اعضا میں چربی سے جسم میں انسولین کی مقدار درست انداز میں پیدا نہیں ہوتی اور جسم میں ذیابیطس کا شکار بن جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر کسی شخص کے سی ٹی اسکین میں اندرونی اعضا، مسلز، جلد، پٹھوں اور جگر میں چربی سمیت شریانوں میں بھی چربی اور کیلشیم کی مقدار زیادہ ہو تو اسے فوری ایسےعلاج کی ضرورت ہوتی ہے جو مستقبل میں ذیابیطس کا شکار بنانے سے بچا سکے۔
ماہرین کے مطابق ذیابیطس جینیاتی بھی ہوتی ہے، تاہم حالیہ دور میں خراب طرز زندگی، غیر صحت مند غذا اور اسی طرح کے دوسرے عوامل ذیابیطس کا سبب بن رہے ہیں۔