پاکستان میں فروخت ہونے والے بیشتر سینیٹائزر غیرمعیاری کیوں؟

 ہینڈ سینیٹائزر فائل فوٹو ہینڈ سینیٹائزر

کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال بڑھ گیا ہے، مگر درآمدی یا مقامی طور پر تیار سینیٹائزر کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے اب تک کوئی اتھارٹی موجود نہیں۔

گزشتہ سال مئی میں وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) سے سینیٹائزر کی تیاری اور فروخت کا اختیار لے کر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو منتقل کیا جائے گا۔

قانون کے مطابق ڈریپ وہ سرکارہ ادارہ ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے ادویات اور بازاروں میں دستیاب طبی مصنوعات عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ہدایات کے مطابق تیار ہوں۔

وفاقی کابینہ کی جانب سے سینیٹائزر کے لائسنس اور معیار کا اختیار پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کو منتقل کرنے کے فیصلے سے نظام میں ایک خلا پیدا ہوا۔

پی ایس کیو سی اے نے ایک سال قبل سینیٹائزر کے لیے معیار کو تشکیل دیا تھا اور ہینڈ سینیٹائزر تیار کرنے والی کمپنیوں اور تقسیم کاروں کو اتھارٹی کی جانب سے ایک پریس ریلیز کے ذریعے پاکستان اسٹینڈرڈ پر عملدرآمد کی ہدایت کی گئی تھی۔

اتھارتی کے ترجمان رحمت اللہ میمن نے بتایا کہ پی ایس کیو سی اے کی جانب سے ملک بھر میں متعدد مصنوعات کے معیار کو برقرار رکھا جاتا ہے۔

اتھارٹی کی جانب سے تمام کمپنیوں کو ہدایت کی گئی کہ ہر بوتل یا پیکنگ پر لیبل میں سینیٹائزر میں موجود اشیا کی مقدار، تیاری کی تاریخ اور ایکسپائری ڈیٹ، بیچ نمبر اور کمپنی کا نام پتے کے ساتھ واضح ہونا چاہیے۔

تیکنیکی طور پر پی ایس کیو سی اے ایسا آفیشل ادارہ ہے جسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) نے ٹیکنیکل بیریئرز ٹو ٹریڈ (ٹی بی ٹی) معاہدے میں شامل کیا ہوا ہے اور معیار طے کرنے والی بین الاقوامی اداروں بشمول انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف اسٹینڈرائزیشن اور دیگر میں پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔

تاہم ڈریپ پاکستان کا ایسا قانونی ادارہ ہے جو ادویات اور دیگر طبی مصنوعات کے لیے عالمی ادارہ صحت سے رابطے میں رہتا ہے اور ڈریپ ایکٹ 2012 کے سیکشن 7 سی کے تحت ہینڈ سینیٹائزر کی تیاری کا نگران ہے۔

وزارت صحت کے لیے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ڈریپ ایکٹ 2012 کے تحت بااختیارہ ادارہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ادویات اور دیگر طبی مصنوعات کے لیے طے شدہ معیار کو یقینی بناتا ہے۔

انہوں نے بتایا 'وفاقی کابینہ کے پاس ڈریپ ایکٹ کو نظرانداز کرنے کا اختیار نہیں جس کی منظوری پارلیمنٹ نے دی'۔

اس قانون کے مطابق ہر طرح کی ادویات ڈریپ کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔

مگر مہارت رکھنے کے باوجود ڈریپ بازار میں دستیاب بڑی تعداد میں موجود درآمدی سینیٹائزر کے معیار کو یقینی بنانے کے عمل میں شریک نہیں، جبکہ ایسا کوئی میکنزم بھی کام نہیں کررہا جو مطلوبہ معیار کو یققینی بنائے، جس پر ماہرین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (پنجاب) کے صدر ڈاکٹر سلمان حسیب نے بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں دستیاب بیشتر ہینڈ سینیٹائزر کورونا وائرس کے خلاف غیرمؤثر نہیں، جو کہ سنگین مسئلہ ہے کیونکہ اس سے کیسز میں بتدریج اضافہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا 'کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے سے پہلے سے کمزور نظام صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ایس کیو سی اے، ڈریپ اور ایف آئی اے اکٹھے مل کر ملک میں صرف معیاری سینیٹائزر کی فروخت کو یقینی بنائیں'۔

install suchtv android app on google app store