گلگت بلتستان کی تعلیی محرومیاں اورانتظامی نااہلیاں

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ

قدرت نے خطہ گلگت بلتستان کو قدرتی وسائل کی لازوال نعمتوں سے نوازا تو یہاں کے مکین بھی ہر میدان میں کسی سے بھی کم نہیں۔

 وہ سکردہ کا حسن سدپارا ہو جس نے پہاڑوں کی بلندیاں چھوتے ہوئے دنیا میں اپنا اور پاکستان کا نام روشن کیا ، وہ انسانی جانوں کے تحفظ میں سرکرداں کسی بم بار کی نظر ہو جانے والا اشرف نور ہو ، ایسے ہی بے شمار نام ہیں جنہوں نے پہاڑوں اور دلکش وادیوں سے ہوش سنبھالا ، ابتدائی تعلیم و تربیت وہیں سے حاصل کی اور اپنی وادی و ملک کا نام روشن کرنے میں مثالیں قا ئم کر لیں…….یہ سبھی لوگ اسی سر زمین سے ابھرے اور ملک کا نام روشن کیا……..گلگت بلتستان جو کہ پہاڑوں وادیوں اور سنگلاخ برفانی پہاڑوں کی سر زمین ہے. جہاں معمولات زندگی اس خطے کے دیگر علاقوں کی نسبت بے حد مختلف ہیں. شہری آبادی سے میلوں دور پہاڑوں کے درمیان سے ایسے گوہر نایاب ابھر کر سامنے آئے کہ اپنے نام کا لوہامنوا لیا.

اگر بنیادی ضروریات زندگی کی بات کی جائے تو تعلیم ایک بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر معاشرے کی ترقی ممکن نہیں، تعلیمی شرح خواندگی میں بحر حال پاکستان کا یہ خطہ بھی شرح خواندگی میں پہلے درجوں میں آتا ہے، ابتدائی اور بنیادی تعلیم کی فراہمی تک تو یہاں سرکاری اور نجی سطح پر ادارے موجود ہیں لیکن اگر اعلی تعلیمی سہولیات کی بات کی جائے تو تین ملین کی آبادی کے لئے اس پورے خطے میں صرف دو یونیورسٹیاں قائم ہیں جو اعلی تعلیم ضروریات پوری کرنے کے لئے ناکافی ہیں ، اعلی تعلیم کی غرض سے طلبا کی بڑی تعداد کو اس خطے سے ہجرت کر کے راولپنڈی لاہور اور کراچی کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔ اس خطے کے باسی دیس سے اتنے دور صعوبتیں تو برداشت کرتے ہیں لیکن خداداد صلاحتوں میں کسی سے بھی کم نہیں ہیں ۔ ماضی گواہ ہے کہ اس قدر دور افتادہ اور دشوار گزار پہاڑی راستوں سے وابسطہ بے شمار چمکتے ستاروں نے ملک کا نام روشن کرنے میں بھر پورکردار کیا ، ۔ وہ ثمینہ بیگ کی صورت میں پاکستان ی پہلی خاتون کو پیما ہو یا حسن سدہ پارا کی صورت ہو۔

اس پورے خطے میں اعلی تعلیم کے لئیت صرف دو یونیورسٹیاں ہیں جن میں انتظامی معاملات بھی تعطل کا شکار نظر آتے ہیں ایسے میں پہلے ہی سے دور افتادہ اس خطے میں علم کی پیاس بجھانے والوں کے لئے کافی دشواری اں موجود ہیں لیکن بلتستان یونیورسٹی تا حال وائس چانسلر جیسے اہم انتظامی عہدے کے بغیر چل رہی ہے ، جبکہ یونیورسٹی کے اندرونی شعبہ جات میں پہلے سے موجود لوگ اقربا پروری کی روش اپنائے ہوئے ہیں. ایڈہاک کی صورت میں سٹاف فرائض سر انجام تو دے رہا لیکن یہ ایڈہاک لوگ بھی ذاتی تعلق واسطے کی بنیاد پر یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات میں تعینات ہیں. جو کہ میرٹ نظام کی کھلے عام پامالی کا عملی ثبوت ہے. اس حوالے سے گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی نے گزشتہ ماہ متفقہ طور پر ایک قرارداد کی منظوری دی جس میں وفاقی حکومت سے بلتستان یونیورسٹی میں وائس چانسلر مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ایوان میں یہ قرارداد سینیٹر وزیر محمد اکبر تاباں اور رکن امتیاز حیدر نے پیش کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گلگت بلتستان کی مقامی حکومت اور انتظامیہ اس اہم فریضے اور بنیادی تعلیمی مسئلے کے حل کے لئے بھی وفاق کا سہارا لے گی. کیااس مسئلے پر مقامی انتظامیہ اقدامات نہیں کر سکتی تھی.

فروری میں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کونسل ختم کئے جانے کا بھی اعلان کیا گیا تھا اور اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو تفویض کرنے کا بھی اعلان کیاتھا ۔ تا کہ گلگت بلتستان حکومت کو مزید با اختیار بنا کر اختیارات وہاں کی مقامی حکومت کی دسترس میں دیے جائیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گلگت بلتستان کونسل کے با اختیار ہونے سے مقامی حکومت اپنے فیصلے خود کر سکے گی ، لیکن یہ سب بات اسی پر منحصر ہے کہ یہ حکومت کب با اختیار ہوتی ہے، اور تعلیمی اداروں سمیت خطے میں دیگر شعبہ ہاہئے زندگی سے تعلق رکھنے والے اداروں کے لئے از خودکتنے با اختیار فیصلے کرتی ہے۔

install suchtv android app on google app store