یہ نا انصافیاں کب تک

گلگت بلتستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسا علاقہ ہے جو جغرافیائی لحاظ سے کافی اہمیت کے حامل ہے.یہ علاقہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے. اگرچہ اس علاقے سے دنیا کا رابطہ سنگلاخ درّوں اور گھاٹیوں برفانی تودوں اور گلیشئیرز کی وجہ سے نہایت ہی مشکل اور کٹھن ہے.وہاں وسسائل کی دستیابی اور انسانی ہمّت دونوں یکجا ہوجائے تو تین چار مملکتوں کے لئے صدر دروازہ ثابت ہو سکتے ہے۔

گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے کو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جبکہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا الغیور کا علاقہ ہے.جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر،جنوب میں آذاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخواہ واقع ہے.اس خطے میں سات ہزار میٹر بلند50 چوٹیاں واقع ہیں۔دنیا کی تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم ،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اس خطّے میں واقع ہے.جبکہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشیئرز بھی اس خطّے میں واقع ہیں.کے ٹودنیا کی دوسری بڑی پہاڑی چوٹی ہے یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم میں واقع ہیں۔

اس کی بلندی8611 میٹر ہے. کوہ پیماوں کا کہنا ہے کی ماونٹ ایورسٹ کے مقابلے میں کے ٹو پر چڑھنا اور اسے سر کرنا زیادہ مشکل ہے۔ کے ٹو کو پہاڑوں کا پہاڑ یا کبھی وحشی پہاڑبھی کہتے ہیں۔

ماونٹ ایورسٹ کو آج تک لگ بھگ تین ہزار بار سر کیا جا چکا ہے۔اس کے مقابلے میں کے ٹو کو300بار سر کر چکا ہے۔اس علاقے کی تاریخ بہت اہمیت کے حامل ہے مختلف ادوار میں مختلف اقوام کا اس علاقے میں آباد ہونا اور مختلف حکمرانوں کا اس علاقے پر حکمرانی کرنے کی علامات اب بھی موجود ہیں۔ یہاں سکھوں اور ہندووں کی حکومت کے بعدمقامی راجگان نے صدیوں تک اس علاقے پر حکمرانی کی۔لوگ ان ڈوگرہ استباط کے ہاتھوں غلامی کے زندگی گزار رہے تھے۔لیکن بلاآخر الّلہ کے فضل و کرم اور یہاں کے غیّور اور باہمت لوگوں کے جدوجہد کی بدولت آذادی حاصل کی اور اس علاقے کو پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ گلگت بلتستان کے لوگوں نے پتھروں اور ڈنڈوں سے حملے کر کے ہندووں اور سکھوں کو اس علاقے سے نکال دیا اور پاکستان کے ساتھ وفاداری کی۔

یہاں کے لوگوں نے ہر میدان میں پاکستان سے محبت و وفاداری کا اظہار کیا۔لیکن افسوس قائد اعظم کے بعد ہر وفاقی حکومت نے اس علاقے کے ساتھ نا انصافی کی اور اس علاقے کو نظر انداز کیا اور اس علاقے کو اپنے حقوق سے محروم رکھا لیکن اس علاقے کے عوام نے پاکستان کے ساتھ بے وفائی نہیں کی اور ہر میدان میں دوسروں کی طرح پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہے اور کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیالیکن اس علاقے کے ساتھ نا انصافیاں آخر کیوں؟ پاکستان کے روشن مستقبل کے ضامن منصوبے سی پیک کا ایک تہائی کے قریب حصّہ شاہراہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے اور یہ نہ صرف پاکستان کیلئے گیم چینجر منصوبہ ہے بلکہ اس سے علاقے پر بھی مثبت اثرات مرتّب ہونگے۔

اس اہم منصوبے پر دشمن طاقتوں کی بھر پور نگاہیں ہیں اور وہ چاہتے ہے کہ یہ اہم معاشی منصوبہ خدانخواستہ ناکام ہو جائے اس کے سد باب کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے اوراس سلسلے میں وفاقی حکومت کا جانبدار اور افسوس ناک رویّہ بھی قابل غور ہے کہ اس عظیم منصوبے میں محروم و مجبور اس خطّے کے عوام متناسب حصّہ نہیں دیا گیا دوسری طرف جب سے سی پیک کا منصوبہ یہاں سے گزرا ہے کبھی گندم سبسڈی کو ختم کبھی نا جائز ٹیکس نافذ کر کے اور کبھی خالصہ سرکار کے نام پر عوامی حسّاس مسائل کو چھیڑ کر خطے میں بے چینی پھیلا کی حکومتی کاروائیاں کی جارہی ہے جو کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر تعلیم کے میدان میں اس علاقے کے ساتھ ناانصافیاں ہو رہی ہے صوبے کی حیثیت ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم کی سہولیات سے اب بھی محروم ہے۔

حال ہی میں یونیورسٹی آف بلتستان سکردو (UOBS) کے نام سے ایک سیٹ اپ دیا گیا جو کہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہے صرف چند ڈیپارٹمنٹسس کے علاوہ باقی اہم ڈیپارٹمنٹ سے اب بھی محروم ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے جس کی وجہ سے بہت سارے سٹوڈنٹس اپنے گھروں سے دو ر انتہائی مشکلات میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

وفاقی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان پسماندہ علاقہ ہونے کے ناطے فاٹا اور بلوچستان کی طرز پر پنجاب کے مختلف یونیورسٹیز میں اسپیشل کوٹہ دیا جاتا ہے لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس حقوق سے بھی محروم ہے جبکہ فاٹا اور بلوچستان کے سٹوڈنٹس اس اسپیشل کوٹے سے اب بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔فاٹا اور بلوچستان کے سٹوڈنٹس اس اسپیشل کوٹے کی بنیاد پر صرف ۳۰ روپے فی سمسٹر فیس دیتے ہے جبکہ گلگت بلتستان کے سٹوڈنٹس اس کوٹے سے محروم ہونے کے بعد فی سمسٹر بھاری فیس ادا کرنے پر مجبور ہے جسکی وجہ سے غریب سٹوڈنٹس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے جو کہ اس سے استفادہ حاصل کر رہے تھے اور وہ اپنی تعلیم کو خیر باد کہنے پر مجبور ہے۔

یہ ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی اور کم ظرفی ہے خصوصاََ صوبائی حکومت کی جو کہ اس بارے میں وفاقی حکومت بات چیت نہیں کرتے بلکہ اپنی جیبیں گرم کرنے پر تلے ہیں اس لئے ہم موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے سٹوڈنٹس کیلئے اس اسپیشل کوٹے کو بحال کیا جائے تاکہ غریب طبقے کے لوگ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں کو اس ملک عظیم کی ترقی میں استعمال کر سکے۔

بقول شاعر ذیشان مہدی

زباں پر بے وفائی کے گلے شکوے تو ہے لیکن

میں اپنے دل کے ہر گوشے میں پاکستان رکھتا ہوں

install suchtv android app on google app store