جادو

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
جادو فائل فوٹو

جادو


"اکرم بھائی چائے دییو۔ دو کپ فٹافٹ، اور جادو کہاں ہے تیرا۔ اب تو دھوپ بھی نکل آئی چارج نہیں ہوا وہ۔"

گاہک نے آتے ہی آواز لگائی اس کی نگاہیں ہوٹل کی کونوں میں ایک چھوٹے سے ٹھٹھرتے وجود کو ڈھونڈنے لگیں۔

فضل نامی 7 سالہ بچہ کچھ ہی دن سے اس چھپرا ہوٹل پہ کام کرنے آرہا تھا۔

سفید رنگت تھی مگر صبح صبح اس پہ زردی چھائی ہوتی۔

ایک پرانا گھسا ہوا سوئیٹر پہنے دھوپ نکلنے سے پہلے تک وہ کام کرتے ہی ہوٹل کے کونے سنبھال لیتا۔

اس کے جسم پہ طاری کپکپی کسی سے پوشیدہ نہ ہوتی تھی۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ کام سے گھبراتا ہو۔

یہی فضل دن چڑھ آنے پہ دھوپ لگتے ہی کسی بیٹری والے پنکھے کی طرح سرپٹ کام پہ دوڑتا۔

اسی لیے اکرم بھائی بھی نکالنے سے گریز کر رہے تھے۔

بس دوپہر کے کھانے تک کا انتظار ہوتا تھا فضل دھوپ میں بیٹھ کے کسی بھی گاہک کا بچا کھانا کھاتا اور اس کی بیٹری فل چارج ہوجاتی۔

باپ نشہ کرتا تھا اور ماں نے بڑی منتوں سے اسے کام پہ رکھوایا تھا ماں خود ٹی بی کی مریضہ تھی۔

سرکاری ہسپتال سے علاج تو چل رہا تھا مگر جب تک علاج پورا ہوتا کوئی گھر پہ کام دینے کو تیار نہیں تھا۔

مجبورا فضل اور اس سے چھوٹے تین بہن بھائیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ماں نے دل پہ پتھر رکھ کے اسے کام پہ لگوا دیا۔

روز کے آنے والے گاہکوں نے اس کا نام جادو رکھ دیا تھا کیونکہ وہ دھوپ نکلنے کے بعد ہی ڈھنگ سے کام کرتا تھا۔

صبح صبح کوئی کام کرنے کی کوشش بھی کرتا تو ہاتھ کانپ کانپ جاتے تھے۔

مگر آج عجب ہوا وہ ہوٹل آیا تو سب نے ہی محسوس کیا کہ اس کے چہرے پہ روز کے مقابلے میں کچھ سرخی ہے۔ وہ آج صبح سے ہی پھرتی سے کام کر رہا تھا۔

آخر ایک گاہک نے پوچھ ہی لیا

"جادو، سولر پینل سے ڈرائے بیٹری پہ کنورٹ کروا لیا کیا سسٹم، آج بڑی پھرتی سے کام ہورہا ہے؟"

"رات خیرات ہوئی تھی محلے میں، تھوڑے چاول بچ گئے تھے۔ ناشتہ کر کے آیا ہوں۔

" فضل ٹیبل صاف کرتے کرتے مصروف سے انداز میں بتا کے چلا گیا اور سب کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا۔

"ممبر ینگ وومین رائٹرز فورم"

install suchtv android app on google app store