روہنگیا لڑکی کی بنگلہ دیشی لڑکے سے شادی جرم بن گئی

  • اپ ڈیٹ:
شعیب حسین کو رافظہ سے محبت میانمار سے فرار ہو کر اُس کے قصبے سنگیر میں آبسنے کے بعد ہوئی تھی شعیب حسین کو رافظہ سے محبت میانمار سے فرار ہو کر اُس کے قصبے سنگیر میں آبسنے کے بعد ہوئی تھی

کہتے ہیں محبت ہر حال میں پروان چڑھتی ہے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال اس روہنگیا لڑکی اور بنگلہ دیشی نوجوان کی ہے جنہوں نے نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کی بلکہ سن 2014ء سے بنگلہ دیشی شہریوں کی روہنگیا مہاجرین لڑکوں سے شادی پر پابندی کے باوجود شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔

دولہا کا نام شعیب حسین ہے۔ عمر 25 برس ہے جبکہ ان کی بیوی کا نام رافظہ ہے جو 18 برس کی ہیں۔ شعیب حسین قصبہ سنگیر کے قریبی گاؤں کا رہائشی ہے۔ سنگیر دارالحکومت ڈھاکا کے قریب واقع ضلع مانک گنج کا حصہ ہے۔

شعیب حسین کو رافظہ سے محبت میانمار سے فرار ہو کر اُس کے قصبے سنگیر میں آبسنے کے بعد ہوئی تھی۔ یہ محبت ابھی کامیابی کے مراحل طے کر ہی رہی تھی کہ پولیس نے رافظہ کو اس کے خاندان سمیت سنگیر سے کاکس بازار میں قائم عارضی کیمپوں میں منتقل کردیا۔

شعیب کچھ ماہ تک رافظہ کو تلاش کرتا رہا پھر بلاخر وہ ایک کیمپ میں اسے مل گئی۔ جب اس محبت کا پتا دونوں کے والدین اور دیگر خاندان والوں کو ہوا تو دونوں کی شادی کردی گئی۔

کاکس بازار کے کیمپوں میں ہونے والی یہ پہلی ایسی شادی تھی جس کا دولہا بنگلہ دیشی اوردولہن روہنگیا تھی۔ لیکن چونکہ سن 2014ء سے بنگلہ دیش نے بنگلہ دیشی شہریوں کے روہنگیا خاندانوں میں شادی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے لہذا شعیب اور رافظہ کو بنگلہ دیش کی پولیس جگہ جگہ تلاش کررہی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے پولیس کے حوالے سے لکھا ہے کہ دونوں میاں بیوی روپوش ہیں اور مسلسل اپنا ٹھکانہ بدلتے رہتے ہیں۔

سنگیر ٹاؤن کی پولیس کے سربراہ خوندکر امام حسین نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اس شادی کی خبر پولیس کے کانوں میں پڑ چکی ہے۔ اس نے شعیب کے گھر پر چھاپہ بھی ممارا ہے لیکن وہ دونوں پہلے ہی وہاں سے نکل گئے تھے۔ پولیس نے اس کے والدین اور رشتے داروں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔

بنگلہ دیشی قانون کے مطابق وہاں کے شہری روہنگیا مہاجرین میں رشتہ نہیں کرسکتے۔ اس پابندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ شادی کرنے کی صورت میں روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیشی شہریت کے حقدار ہوجاتے ہیں۔

اس شادی سے شعیب کو کچھ ہو یا نہ ہو، اس کی بیوی رافظہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ اگر شعیب پولیس کی گرفت میں آجاتا ہے تو پریشانی رافظہ کو ہی ہوگی جبکہ دونوں پکڑے گئے تو بھی قانون سے بچ نہیں سکیں گے اور سزا کے مستحق ہوجائیں گے۔

رافظہ کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ بنگلہ دیش میں نہیں رہ سکتی تو کہاں جائے؟ میانمار کے دروازے تو پہلے ہی بند ہوچکے ہیں۔ مجبوراً دونوں کو کسی تیسرے ملک کا رخ کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ بھی مسئلہ حل ہوجانے کی گارنٹی تو نہیں؟

ادھر شعیب حسین کے والد بُلبُل حسین کا کہنا ہے کہ ’’ایک بنگلہ دیشی مرد کسی مسیحی خاتون یا دوسرے مذہب کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے تو روہنگیا مہاجر کی بیٹی سے شادی کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟‘‘

install suchtv android app on google app store