امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف طبل جنگ نہیں بجایا ہے

امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف طبل جنگ نہیں بجایا ہے امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف طبل جنگ نہیں بجایا ہے

وائیٹ ہاؤس کی پریس سیکٹری سارا ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس کا تصور بھی کرنا ایک فضول اور بے معنی بات ہے۔

وائیٹ ہاؤس کی پریس سیکٹری کے بیان سے چند ہی گھنٹے قبل شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری یونگ ہو نے اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے قریب ذرائع ابلاغ کے نمائیندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ میں کرسی صدارت پر فائز شخصیت کی طرف سے یہ ٹویٹ کرنا کہ اگر شمالی کوریا کوئی دھمکی دیتا ہے تو اُس کا وجود تک باقی نہیں رہے گا ، یقینی طور پر طبل جنگ بجانے کے مترادف ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ اور تمام تر دنیا کو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ شمالی کوریا کے خلاف اعلان جنگ پہلے امریکہ نے کیا ہے۔

نیوزی لینڈ کے شہر ولنگٹن میں قائم وکٹوریہ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرر وین جیکسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ شمالی کوریا متعدد بار جنگ کی دھمکی دے چکا ہے تاہم اب یہ بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر ہم اس وقت حالت جنگ میں نہ بھی ہوں تب بھی ہمارے بیانات اور اقدامات یقینی طور پر ایسی سمت میں جا رہے ہیں جو جنگ کو یقینی بنا دے ۔ اس طرح جنگ روکنے کے اقدامات ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری نے خبردار کیا ہے کہ اُن کا ملک امریکی بمبار جہازوں کو مار گرائے گا چاہے وہ شمالی کوریا کی فضائی حدود کے اندر ہوں یا باہر ہوں۔

جنوبی کوریا کی خبررساں ایجنسی یون ہیپ کے مطابق جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ لی چیول وو نے کہا ہے کہ شمالی کوریا اپنے جنگی جہازوں کی پوزیشنیں بدل رہا ہے اور مشرقی سرحد کے قریب اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔

1969 میں شمالی کوریا کے ایک لڑاکا جہاز نے جاسوسی کی غرض سے آنے والے امریکی بحریہ کے ایک بغیر پائلٹ کے جہاز کو بحیرہ جاپان میں شمالی کوریا کی فضائی حدود کے باہر مار گرایا تھا جس کے نتیجے میں 30 ملاح اور ایک میرین ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر نے پیر کے روز ایک بیان میں اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ جنگ نہیں ہو گی۔ تاہم ہم جنگ کے امکان کو رد نہیں کر سکتے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ نے شمالی کوریا کے ساتھ مسائل حل کرنے کیلئے مختلف طریقوں پر غور کیا ہے جن میں سے کچھ طریقے یقیناً اچھے نہیں ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ فار دا سٹدی آف وار کی طرف سے منعقد کئے گئے سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے میک ماسٹر نے کہا کہ کوئی ایک حملہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو سکے۔

اُنہوں نے کہا کہ اس بحران کے حل کا ایک پر امن طریقہ یہ ہو گا کہ شمالی کوریا بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے انسپکٹرز کو اپنی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے۔ تاہم کوئی بھی سفارتی مزاکرات ایسی شرائط کے تحت ہونے چاہئیں جو گزشتہ مزاکرات سے مختلف ہوں۔ میک ماسٹر نے البتہ مزاکرات کیلئے کسی بھی قسم کی پیشگی شرائط بتانے سے گریز کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بات چیت کا ایک راستہ چین کی مدد حاصل کرنا ہے جس نے حال ہی میں شمالی کوریا کے ساتھ بینکنگ تعلقات ختم کر دئے ہیں اور شمالی کوریا کو مائع قدرتی گیس کی سپلائی روکنے کے علاوہ شمالی کوریا سے ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی درآمد بھی روک دی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر ٹی جے پیمپیل کے مطابق چین نے شمالی کوریا کو خبردار کیا ہے کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے۔ پروفیسر پیمپیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اُنہیں یقین نہیں ہے کہ لفظوں کی جنگ کے باوجود شمالی کوریا حقیقی طور پر جنگ چاہتا ہے کیونکہ شمالی کوریا یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ کسی ایسی جنگ کے نتیجے میں شمالی کوریا میں کم جونگ اُن کی حکومت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

install suchtv android app on google app store