اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف نئی فلسطینی قرارداد کا مسودہ تیار

اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف نئی فلسطینی قرارداد کا مسودہ تیار تازہ مسودہ قرارداد میں ماضی میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے منظور کردہ قراردادوں اور معاہدوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے

 

 

 

فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خاتمے اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے حوالے سے سلامتی کونسل میں پیشی کے لیے نئی قرارداد کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔ جس میں سلامتی کونسل کو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اس کی ذمہ داریوں کی باردگریاد دہانی کرائی گئی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی اور عرب ممالک کی جانب سے تیار کردہ قرارداد میں فلسطین میں اسرائیل کی غیرقانونی توسیع پسندی، طاقت کے ذریعے اراضی پر ناجائز قبضے کا ظالمانہ سلسلہ بند کرانے اور تنازع کا دو ریاستی حل نکالنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

تازہ مسودہ قرارداد میں ماضی میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے منظور کردہ قراردادوں اور معاہدوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خطے میں دیرپا قیام امن کے لیے مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں میڈریڈ امن معاہدے میں وضع کردہ اصولوں کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے جن میں قیام امن کے بدلے زمین کا قبضہ چھوڑنے پر زور دیا گیا ہے۔

نئی قرارداد میں دو ٹوک الفاظ میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت کے پرزور مطالبے کے ساتھ ساتھ مشرقی بیت المقدس کو مجوزہ فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کا بنیادی مطالبہ غزہ کی پٹی، مقبوضہ غرب اردن، مشرقی بیت المقدس اور سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں چلے جانے والے تمام فلسطینی علاقوں پر مشتمل آزاد اور مکمل خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں‌ لانا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی اور عرب ممالک کی مشترکہ مساعی سے تیار کردہ قرارداد کو رواں ماہ کے آخر میں رائے شماری کے لیے سلامتی کونسل میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ قرارداد کی تیاری کے بعد عالمی سطح پر اس ردعمل بھی آنا شروع ہو گیا ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکا حسب سابق مسئلہ فلسطین کے حل کے مطالبے پر مبنی اس قرارداد کو بھی ویٹو کر دے گا، تاہم اقوام متحدہ میں امریکا کی خاتون سفیر سمناتھ پاور نے نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے اُنہیں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی نئی تیار کردہ قرارداد کا علم ہے۔ ہم مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے ہونے والی مساعی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ امریکا مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل پر زور دیتا ہے اور کسی فریق کی جانب سے یک طرفہ اقدامات کی حمایت نہیں کرتا۔

واضح رہے کہ اسرائیل بھی کئی عالمی امن معاہدوں‌اور قراردادوں کے ذریعے سنہ 1967ء کی جنگ سے قبل والی پوزیشن پر واپس جانے اور ایک مکمل اور خود مختار فلسطینی ریاست کے مطالبے کو اصولی طور پر تسلیم کر چکا ہے مگر صہیونی ریاست کی جانب سے ہر بار کسی بھی عالمی فورم پر ایسی کسی بھی کوشش کو یہ کہہ کر سبوتاژ کر دیا جاتا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام سے قبل اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت فراہم کی جائے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں واضح کیا تھا کہ اگر اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ ختم کرنے کے لیے عملآ تیار نہیں اور ہمیں مسئلے کے حل کی کوئی واضح ڈیڈ لائن نہیں‌ دی جاتی تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں‌ ہے۔ پچھلے 47 سال سے مسئلہ فلسطین صرف اسرائیل کے غیر لچک دار رویے اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حل طلب ہے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں محمود عباس نے جولائی اوراگست کے دوران 51 روز تک غزہ کی پٹی پر جاری رہنے والی صہیونی جارحیت کی شدید مذمت کی اور اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا۔

اس کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے صدر محمود کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن کی بات کرتے ہیں اور محمود عباس ہمیں جنگی جرائم کی عدالتوں میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیتن یاھو نے انکشاف کیا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں تاہم انہوں‌ نے اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔

 

 

 

install suchtv android app on google app store