کیا مجرم پیدائشی بھی ہو سکتا ہے؟ سائنسی تحقیق

یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا کوئی تشدد پسند مجرم فطری طور پر اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے یا بچپن کے تجربات اور حالات اسے اس راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اس سوال کا جواب انسانی ڈی این اے میں ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

علمِ نفسیات میں یہ قدیم ترین سوالات میں سے ایک ہے کہ کیا کوئی شخص پیدائشی طور پر مجرم ہو سکتا ہے، یا حالات و واقعات کسی شخص کو تشدد اور زیادتی کے رستے پر ڈال دیتے ہیں۔ تاہم انسانی ڈی این اے پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جرم کی راہ میں ڈال دینے میں نصف کردار جین کا بھی ہو سکتا ہے، جو پیچیدہ دماغی کیمیائی مادوں پر اثرانداز ہو کر کسی انسان کو مجرم بنا سکتا ہے۔ مگر اس سلسلے میں اب تک ڈی این اے کو اس کا قصوروار قرار دینے کی بابت سامنے آنے والے اشارے مبہم رہے ہیں۔

یورپ اور امریکا کے سائنس دانوں نے منگل کے روز انسانی ڈی این میں موجود ایسے دو جینز کی ایک خصوصی قسم کا سراغ لگایا ہے، جو تشدد پسند مجرموں میں ’انتہائی زیادہ تعدد‘ سے دیکھا گیا ہے۔

اس تحقیق میں فن لینڈ کی جیل میں موجود 800 قیدیوں کو مطالعہ کیا گیا، جن میں تشدد اور عدم تشدد کے حامل جرائم میں ملوث مجرموں اور عام افراد کے موازنے میں دو جینز کی کئی اقسام دیکھی گئیں۔

سائنس دانوں کے مطابق انسانی ڈی این میں موجود ایم اے او اے اور سی ڈی ایچ 13 جینز کسی شخص کے انتہائی پرتشدد رویے سے مربوط ہوتے ہیں۔

مالیکیولر سائکیٹری نامی سائنسی جریدے میں شائع کردہ اس تحقیقی رپورٹ میں محققین کا کہنا ہے، ’ایم اے او اے اور سی ڈی ایچ 13 کی مضبوط اشارے عدم تشدد سے جڑے جرائم میں ملوث قیدیوں اور عام افراد میں نہیں دیکھے گئے، تاہم ان جیز کی موجودگی اور سرگرمی پرتشدد جرائم میں ملوث افراد میں دیکھی گئی۔ سائنس دانوں نے اس سلسلے میں ماحولیاتی محرکات کو بھی دانست میں رکھا، جس کے تحت یہ دیکھا گیا کہ آیا لوگوں کا غیر سماجی رویوں، بچین کے غلط برتاؤ یا ماضی کے برے واقعات سے کتنا تھا۔ تاہم اس سلسلے میں نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

یہ تحقیق تاہم یہ نہیں بتاتی کہ جینیاتی طور پر مختلف اقسام کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ متعدد دیگر جینز بھی اس سلسلے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر سالماتی بنت میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تحقیق میں فقط یہ کہا گیا ہے کہ جینز کی یہ دو اقسام اس سلسلے میں ’عمومی‘ دیکھی گئی ہیں۔

تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک ایسے فرد میں بھی یہ جینز موجود پائے گئے، جو ریپ اور قتل کے جرائم میں ملوث نہیں تھے۔ جب کہ کچھ افراد جو ایسے پرتشدد جرائم میں ملوث تھے، ان میں جینز کی یہ اقسام نہیں دیکھی گئیں۔

اس تحقیقی رپورٹ کے شریک مصنف جیری ٹیہونین کے مطابق، ایم اے او اے اور سی ڈی ایچ 13 سنگین خطرے کے حامل ملاپ تشدد پسند مجرموں میں زیادہ پایا گیا ہے، تاہم ایک بڑی تعداد میں اسی جینیاتی ملاپ کے حامل افراد ایسے بھی ہیں، جنہیں پرتشدد جرائم میں ملوث نہیں پایا گیا۔

install suchtv android app on google app store