بیلجیئم کا ’تاج‘ مائگرین کے شکار امریکیوں کے سر پر

اس بیماری میں مبتلا ہونے والی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تین گُنا تک زائد ہے اے ایف پی اس بیماری میں مبتلا ہونے والی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تین گُنا تک زائد ہے

بیجلیئم کی ایک چھوٹی سی ٹیکنالوجی کمپنی اپنی ایک حیران کن ایجاد ’اینٹی مِگرین ہیڈ بینڈ‘ تیار کر کے امریکا جیسی بڑی مارکیٹ میں کامیابی کے لیے انتہائی پر امید ہے۔

کئی برسوں کی طبی اور تیکنیکی تحقیق کے نتیجے میں تیار کی جانے والی ’سیفلی مائگرین‘ Cefaly Migraine نامی یہ ڈیوائس دراصل سر پر پہنا جانے والا پٹی نما ایک بینڈ ہے جس میں الیکٹروڈز لگے ہوئے ہیں۔ اس بینڈ کا مقصد درد شقیقہ کی شدت میں اضافے سے قبل ہی اسے ختم کرنا ہے۔

مِائگرین یا درد شقیقہ سر میں ہونے والا ایک شدید درد ہے جو آنکھوں کے پیچھے سے شروع ہوتا ہے اور کئی دنوں تک مسلسل جاری رہ سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر کی آبادی میں قریب ہر ساتواں بالغ فرد کسی نہ کسی حد تک مِگرین کا شکار ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے والی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تین گُنا تک زائد ہے۔

یہ بینڈ بیلجیئم کی کمپنی سیفلی ٹیکنالوجی Cefaly Technology نے تیار کیا ہے۔ اسے ماتھے پر پہنا جاتا ہے اور یہ ماتھے کے پیھچے ان دماغی اعصاب کو بجلی کی لہریں بھیجتا ہے جو مائیگرین کا سبب بنتے ہیں۔ اگرچہ یہ ڈیوائس سر کے شدید درد کا علاج تو نہیں ہے تاہم اسے تیار کرنے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ کبھی کبھار ہونے والے یعنی "episodic" مِگرین کو بہت زیادہ شدید یا "chronic" مائگرین بننے سے روکنے میں معاون ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کےمطابق مِگرین یا درد شقیقہ ان 20 ٹاپ وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے برسوں تک صحت مند زندگی متاثر رہتی ہے۔

بیٹری کی مدد سے چلنے والے اس ہیڈ بینڈ کو امریکی ادارے ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ یعنی FDA کی طرف سے امریکا میں فروخت کی اجازت دے دی گئی ہے، جسے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ سیفلی ٹیکنالوجی نامی یہ کمپنی امید کر رہی ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر یہ کم از کم 10 ہزار یونٹس امریکا میں فروخت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

سیفلی ٹیکنالوجی 2004ء میں ایک 58 سالہ میڈیکل ڈاکٹر اور ایک انجینئر نے مل کر بنائی تھی۔ یہ کمپنی ابتدائی طو پر اسپورٹس میڈیسن کے شعبے میں تحقیق کا کام کر رہی تھی، جس میں پٹھوں کو ’الیکٹریکل اسٹیمولیشن‘ یا برقی تحریک کے ذریعے علاج کوئی نئی چیز نہ تھی۔

تاہم اس کے لیے عمومی طور پر الیکٹروڈز کو جسم کے اندر داخل کر کے علاج کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شدید درد کے علاج کے لیے اسپائنل کورڈ یا حرام مغز میں الیکٹروڈز داخل کر کے ’الیکٹریکل اسٹیمولیشن‘ دی جاتی ہے۔

تاہم بیلجیئم کی اس کمپنی کے لیے چیلنج یہ تھا کہ وہ اس شعبے میں مستعمل تیکنیک کو اعصاب کو بیرونی طور پر تحریک دے کر علاج ممکن بنائے۔

Cefaly Technology کے مینیجنگ ڈائریکٹر Pierre Rigaux کے مطابق ان کی یہ تحقیق دراصل ایک طرح کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی ہے۔ کیونکہ یہی چیز امریکی حکام کو مثبت محسوس ہوئی کہ اس طریقہ علاج میں نہ تو الیکٹروڈز کو جسم کے اندر داخل کیا جاتا ہے اور نہ ہی ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔

install suchtv android app on google app store