تمغہ جیتنے والے ایک تہائی کھلاڑیوں کے خون کے نمونے مشتبہ

بین الاقوامی ایتھلیٹکس میں مشتبہ خون کے نتائج کے انکشاف سے کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں بین الاقوامی ایتھلیٹکس میں مشتبہ خون کے نتائج کے انکشاف سے کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشنز (آئی اے اے ایف) کو ڈوپنگ کے تازہ مشتبہ الزامات سامنے آنے کے بعد ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔

لیک ہونے والے شواہد کی بنیاد پر ماہرین نے یہ شک ظاہر کیا ہے کہ سنہ 2001 سے 2012 کے درمیان ہونے والے اولمپکس اور بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل جیتنے والے ایک تہائی ایتھليٹس نے محدود منشیات یا پھر کارکردگی میں اضافہ کرنے والی ادویات کا استعمال کیا تھا۔

یہ باتیں برطانوی اخبار دی سنڈے ٹائمز اور جرمنی کے براڈ کاسٹر اے آر ڈی/ ڈبلیو آر ڈی کو دستیاب پانچ ہزار کھلاڑیوں کے خون کے 12,000 نمونے کے نتائج کی بنیاد پر سامنے آئی ہیں۔

اخبار کے مطابق یہ شواہد عالمی پیمانے پر ہونے والے ایتھلیٹکس کے مقابلوں میں ’غیر معمولی دھوکہ دہی‘ کو ظاہر کرتے ہیں۔ بی بی سی نے بھی لیک ہونے والے ان شواہد کو دیکھا ہے۔

ماہرین کے مطابق لیک ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 800 ایتھلیٹس یعنی فائل میں موجود ہر سات میں سے ایک ایتھیلٹ کے نمونے ڈوپنگ کے بہت قریب یا کم از کم غیر معمولی ہیں۔

جن ممالک کے کھلاڑی شک کے دائرے میں ہیں، ان میں روس اور كينيا کا نام سرِ فہرست ہے۔

ایک مقبول برطانوی کھلاڑی بھی ان سات برطانوی کھلاڑیوں میں شمل ہیں جو شک کے دائرے میں ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2012 میں لندن میں ہونے والے اولمپکس کھیلوں میں دس تمغے ان کھلاڑیوں نے جیتے جن کے ٹیسٹ نتائج مشتبہ تھے۔

بہت سے فائنل مقابلوں میں پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے کھلاڑیوں میں سے کم از کم ایک کے ٹیسٹ نتائج مشتبہ تھے۔

معروف برطانوی ایتھلیٹ محمد فرح اور جمائیکا کے یوسین بولٹ کے خون کے ٹیسٹ نتائج مشتبہ نہیں ہیں۔

نمونوں کی جانچ کا کام دنیا کے دو اینٹی ڈوپنگ ماہرین سائنسداں روبن پیریسوٹو اور مائیکل اشینڈن کو دیا گيا تھا۔

یہ رپورٹ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشنز کی ملکیت ہیں جسے ایک شخص نے افشا کر دیا۔

پیریسوٹو نے کہا ’میں نے کبھی اس قدر غیر معمولی خون کے نمونے نہیں دیکھے۔ بظاہر کتنے سارے کھلاڑیوں نے ڈوپ کیا اور سزا سے بچے رہے ۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات قابل مذمت ہے کہ آئي اے اے ایف بظاہر سستی کا مظاہرہ کرتی رہی اور یہ سب ہونے دیتی رہی۔

ایشنڈن نے کہا کہ جانچ نمونوں کی فائلیں یہ بتاتی ہیں کہ ایتھلیٹکس اسی مخمصے کا شکار ہے جس کا لانس آرمسٹرونگ کے زمانے میں سائیکلنگ شکار تھی۔

انھوں نے کہا ’اپنے کھیل کی نگرانی کرنا اور صاف ستھرے ایتھلیٹس کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری سے غدداری کتنی شرم ناک ہے۔‘

اگرچہ یہ شواہد ڈوپنگ کا ثبوت نہیں ہیں تاہم اس انکشاف سے سنجیدہ سوالات اٹھیں گے کہ عالمی تنظیم اسی ماہ بیجنگ میں شروع ہونے والے عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ سے قبل دھوکہ دہی اور فریب کو روکنے کے لیے کتنا کچھ کر رہی ہے؟

آئی اے اے ایف نے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کی درستگی پر سوال نہیں اٹھائے ہیں لیکن تنظیم نے سنڈے ٹائمز کب بتایا ’آئي اے اے ایف ہمیشہ ڈوپنگ کو روکنے کے لیے نئی اور اعلیٰ درجے کی تراکیب کے استعمال کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔‘ 

install suchtv android app on google app store