جہلم میں سورج پرست آریوں کی نشانی

ٹلہ کی چوٹی سطح زمین سے 3200 فٹ بلند ہے۔ یہ ایک صحت افزا اور خوبصورت مقام ہے۔ جہاں طبی جڑی بوٹیوں کے علاوہ ایسے مختلف قسم کے درخت اور پرندے بھی پائے جاتے ہیں جو اس علاقے کے دوسرے حصوں میں دکھائی نہیں دیتے۔

آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے آریہ قوم ترکمستان سے کوہ ہمالیہ کے شمالی اور مغربی درّوں کی راہ سے پنجاب میں وارد ہوئی تھی اور چونکہ پنجاب کا پہلا پڑاؤ دریائے جہلم ہے، اس لیے اکثر مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آریہ قوم کی پہلی جولان گاہ وادیٔ جہلم تھی۔ یہ قوم فطری مظاہر چاند، سورج اور ستاروں کو دیوتا مانتی اور ان کی پرستش کیا کرتی تھی۔ ان کے مذہبی رہنمائوں نے سورج دیوتا کی پوجا کے لیے ٹلہ کو ایک موزوں مقام سمجھ کر منتخب کیا تھا۔

ٹلہ جوگیاں، جہلم سے جنوب مغرب کی جانب براستہ دینہ 20 میل (35 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جہلم کا ایک پرفضا مقام ہے۔ ٹلہ جوگیاں، جوگیوں کا ایک مشہور استھان تھا۔ ایک دور میں یہاں بدھوں کا زور رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹلہ جوگیاں قبل مسیح ہی سے ایک خاص شہرت کا حامل رہا ہے۔ اسے ’’کوہ بالناتھ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ کئی حکمرانوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں ٹلہ جوگیاں پر خاص توجہ دی اور اسے جوگیوں کی سہولت کے لیے وقف رکھا۔ انہوں نے جوگیوں کو خصوصی مراعات بھی دیں۔ مغل بادشاہ اکبر نے علاقہ نوگراں کوٹلہ کی جاگیر بنا رکھا تھا، جس کے محاصل سے ٹلہ کی تزئین و آرائش کا کام لیا جاتا تھا۔ یوں تو ٹلہ کو بہت پرانے زمانے سے ہندوؤں کی عبادت گاہ کی حیثیت حاصل تھی لیکن اس کی اصل شہرت کا آغاز گرو گورکھ ناتھ کی آمد پر ہوا۔ بعد ازاں 1452ء میں بہلول لودھی کے دور حکومت میں جوگی بالناتھ آیا اور مشہور عاشق زار رانجھا جٹ اس کا چیلہ بنا تو اس علاقے کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔

ٹلہ کے ناتھ جوگیوں کا سلسلہ بڑا وسیع ہے۔ ان جوگیوں نے یہاں کے تمدن پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ سکندر اعظم سوا تین صدیاں قبل مسیح پنجاب کے اس علاقے میں آیا تو گرجا کو شہر سے جو موجودہ جلال پور شریف ضلع جہلم کے نزدیک واقع تھا ٹلہ کو بلندی سے دیکھا، اسے اہل گرجا گھر نے بتایا کہ ٹلہ میان درویشوں اور جوگیوں کا سب سے بڑا استھان ہے جہاں پورا پنجاب حاضری دیتا ہے، وہاں سینکڑوں جوگی ’’الکھ‘‘ جگانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ہزاروں گائیوں کے دودھ سے وہ خوراک حاصل کرتے ہیں۔ وہ نا صرف جڑی بوٹیوں کے خصائص سے واقف ہیں بلکہ ان سے لوگوں کا علاج معالجہ بھی کرتے اور ایک ’’چٹکی سے روگ‘‘ کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔

یہی عجیب و غریب داستانیں سن کر سکندر اعظم نے ٹلہ پر حاضری دینے کا فیصلہ کیا اور ایک ہاتھی پر سوار ہو کر جوگیوں کے بتائے ہوئے راستہ پر ہاتھی کو چلاتے ہوئے ٹلہ کی چڑھائی چڑھنے کی ٹھانی۔ گو ٹلہ کوئی بہت زیادہ چڑھائی پر واقع نہیں ہے لیکن ہاتھی نہ چڑھ سکا اور راستہ میں ہلاک ہو گیا۔ لہٰذا سکندر کو پیدل اور گھوڑے کی سواری کے ذریعے چڑھائی عبور کرنی پڑی۔ بالناتھ جوگی بڑے صاحب کمال سمجھے جاتے تھے۔ ان کے زمانے میں ٹلہ کا نام کوہ بالناتھ پڑ گیا تھا۔ ان کی روحانی قوت کا اس زمانے میں کافی شہرہ تھا۔ ان سے دعائیں لینے، جوگ حاصل کرنے، آسن جمانے اور گیان دھیان کے طریقے سیکھنے کے لیے دور دراز سے عوام اور راجے مہا راجے آیا کرتے تھے۔ ایک بار خود بہلول لودھی بالناتھ سے ملنے آیا تھا۔ ٹلہ کے لوگ کہتے ہیں کہ آخری دور میں گرو نانک صاحب بھی بالناتھ سے ملاقات کرنے ٹلہ پر آئے تھے۔

یہی وہ ٹلہ ہے جہاں راجہ پورس نے سکندر اعظم سے پنجہ آزمائی سے پہلے اپنا ہیڈ کوارٹرز بنایا۔ یونانی مورخ پلوٹارک نے اس پہاڑی کو ہاتھیوں کا ٹیلہ کا نام دیا ہے۔ بعض یونانی مورخین نے اس جگہ کو ’’فل ناتھ‘‘ اور بعض نے ’’پل ناتھ‘‘ کا نام دیا۔ ٹلہ پنجابی میں بلند چوٹی کو کہتے ہیں۔ یورپ میں جا کر یہ لفظ ’’ٹیلہ‘‘ بن گیا۔ مغلوں کے دور حکومت میں اکبر اعظم یہاں آیا کرتا تھا، اس کے بعد جہانگیر بادشاہ موسم گرما میں کشمیر سے واپسی پر اسی راستے سے گزرتا ہوا یہاں شکار وغیرہ کھیلا کرتا تھا۔ آثار قدیمہ کا صرف ایک آدمی کنگھم جو 1818ء سے پہلے اس مقام پر پہنچا انگریز افسران دورے پر ضرور وہاں پہنچا کرتے تھے۔ اپنی پختگی کی وجہ سے بغیر دیکھ بھال کے ہزاروں سال سے تعمیر شدہ یہ عمارتیں بدستور کھڑی ہیں۔ بیشتر سامان اور ہزاروں قلمی کتابوں کا ذخیرہ ناتھ جوگی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ دینہ سے بس ٹلہ کے دامن میں واقع گائوں ’’بھیٹ‘‘ تک جاتی ہے، وہاں سے چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔

دنیا

install suchtv android app on google app store