جدید عہد کے راولپنڈی میں پتھر کے دور کے باسی

راولپنڈی میں غاروں میں رہائش پذیر افراد کا ایک منظر راولپنڈی میں غاروں میں رہائش پذیر افراد کا ایک منظر

اس جدید دور میں راولپنڈی کے دل میں لگ بھگ سو افراد پتھر کے زمانے کی طرح غاروں میں رہ رہے ہیں۔

اگر آپ اسلام آباد کے علاقے ڈھوک رہ سے بورنگ روڈ کے راسے آئی جے پرنسپل روڈ کی جانب جائیں تو نالے کے قریب قبرستان اور فارمز کو دیکھ سکتے ہیں، ان قبروں کے نیچے کچھ خاندان غاروں میں رہ رہے ہیں اور موجودہ جدید ترین عہد کے باوجود یہ لوگ لالٹینوں، لکڑی اور گائے کے گوبر کو اپنے مسکن روشن کرنے اور پکانے کے لیے چولہے جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

غاروں کے ان رہائشیوں کو موجودہ عہد کی صرف ایک سہولت دستیاب ہے اور وہ ووٹ دینے کا حق، ان کے نام قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 55 کی ووٹرلسٹ میں شامل ہیں جہاں سے 2013 کے الیکشن میں شیخ رشید احمد کامیاب ہوئے۔

وہاں کے رہائشیوں نے بتایا کہ وہ پہلے ایک کچی بستی میں رہتے تھے جسے 2001 میں پاکستان ریلوے نے منہدم کردیا۔ ان کے بقول وہ کچی آبادی 1970 میں تعمیر کی گئی تھی تاہم اپنے مکانات گرائے جانے کے بعد ان بے گھر افراد کے پاس غاروں میں رہنے کا سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔

غاروں میں مقیم افراد میں سے ایک محمد عارف نے بتایا"ہم ڈھوک منگتل کے قریب کلیام آباد میں چالیس برس تک کچی آبادی میں رہے مگر ہمیں گزشتہ تین انتخابات میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کے وعدوں کے باوجود ہمیں مالکانہ حقوق نہیں دیئے گئے"۔

ایک اور رہائشی محمد ظریف نے کہا"ہمارے پاس گھروں کی تعمیر یا کسی رہائشی علاقے میں منتقل ہونے کے لیے وسائل نہیں کیونکہ ہم اسلام آباد فروٹ اینڈ ویجیٹبل مارکیٹ میں مزدوری کا کام کرکے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں"۔

ظریف، اس کی اہلیہ اور چار بچے نے ایک غار کو کھواد اور وہ گزشتہ تیرہ برس سے وہاں رہ رہے ہیں" میرے والد جانتے تھے کہ کس طرح ایک غار کو کھودا جاتا ہے، پہلے کچھ افغان خاندان نور پور ریلوے اسٹیشن کے قریب آئی جے پرنسپل روڈ میں غار کھود کر رہتے تھے اور ہمیں یہ خیال انہیں دیکھ کر ہی آیا"۔

نواب احمد نامی شخص نے بتایا کہ وہ بیس برس سے یعنی اپنی پیدائش کے دن سے ان غاروں میں رہتا آرہا ہے" ہم گائے کے گوبر کو اپنے چولہے روشن کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں"۔ اس نے بتایا "بارشوں کے دوران ہم غاروں سے نکل جاتے ہیں اور قریبی مساجد یا دکانوں کے شیڈز کے نیچے پناہ لیتے ہیں تاکہ کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچ سکیں"۔

کچھ خواتین قریبی گھروں میں ملازمہ کی حیثیت سے کام کرتی ہیں تاکہ اپنے خاندانوں کے گزارے کے لیے مردوں کا ہاتھ بٹاسکیں جبکہ بچے اپنا پورا دن ریلوے گراﺅنڈ میں کھیلتے ہوئے گزارتے ہیں، ان لوگوں میں تعلیم کا کوئی تصور نظر نہیں آتا۔

ایک سوال کے جواب میں محمد عارف نے کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کبھی اسکول نہیں بھیجا "ہم تعلیم سے کیا حاصل کرسکتے ہیں؟ سرٹیفکیٹس کے حصول کے بعد بھی ہمارے بچے مزدور بن کر ہی کام کریں گے، تو بہتر یہی ہے کہ انہیں سیکھایا جائے کہ محنت مشقت کیسے کی جاتی ہے"۔

نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی ملک شکیل اعوان نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے یہاں پانچ کچی آبادیوںکا اعلان کررکھا ہے تاہم یہ غاریں اس زمرے میں نہیں آتیں۔ ان کا کہنا تھا "ریلوے کی اراضی پر کچی بستی کے باسیوں نے قبضہ کررکھا تھا، ماضی میں بیشتر افراد رہائشی سہولیات کی کمی کے باعث اس علاقے میں غاریں کھود کر رہتے تھے، پوٹھوہاری میں ان غاروں کو 'بھورے' کہاجاتا ہے"۔ انہوں نے غاروں کے ان رہائشیوں کے نام ووٹر لسٹ میں شمولیت کے سوال کو نظرانداز کردیا۔

تاہم سابق ضلعی ناظم اور پی ٹی آئی پنجاب کے نائب صدر راجا طارق محبوب کیانی نے بتایا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام بے گھر افراد کو چھت فراہم کرے"ن لیگ کی حکومت دہرے معیار کا مظاہرہ کررہی ہے، ایک طرف تو وہ آشیانہ ہاﺅسنگ اسکیم کے تحت فلیٹس اور گھروں کو تعمیر کررہی ہے جو امیر افراد ہی خرید سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب سے وہ مستحق افراد کو چھت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے"۔ انہوں کے کہا کہ ریلوے کی زمین کو قابضین سے ضرور خالی کرایا جانا چاہئے تاہم یہ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ ایسے افراد کو رہائش فراہم کرے جو اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

مقامی بیوروکریسی مقامی بیوروکریسی نے پنجاب حکومت یہ کہہ کر مس گائڈ کیا کہ راولپنڈی میں کوئی کچی آبادی نہیں، 2013 کے انتخابات سے قبل شہری حکومت نے ایک سروے کا انعقاد کروایا جس کے مطابق شہر میں چار کچی آبادیاں ہیں، جن میں دو راول ٹاﺅن اور دو پوٹھوہار ٹاﺅن میں ہیں، مگر تین کچی آبادیوں کے رہائشیوں کو 2007 میں پرویز الہیٰ کی پنجاب حکومت نے مالکانہ حقوق دیئے تھے۔

رابطہ کرنے پر پاکستان ریلوے کے ڈویژنل سپرٹینڈنٹ منور خان نے کہا کہ وہ اراضی جہاں یہ غار موجود ہیں کیرج فیکٹری کے عملدرای میں آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند برس قبل علاقے میں غیرقانونی سرگرمیوں کی رپورٹس ملنے پر ریلوے نے تمام گھر گرا دیئے تھے تاہم انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان آبادیوں کو قائم ہوئے دو دہائی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔

install suchtv android app on google app store