عمران نااہلی کیس: کاغذات نامزدگی میں اثاثے ظاہر نہ کرنے کے قانونی اثرات ممکن

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی چیف کی جانب سے لندن فلیٹ کو اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کے قانونی نتائج ہوسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف الیکشن کمیشن (ای سی پی) میں اثاثے اور آف شور کمپنیاں ظاہر نہ کرنے سمیت بیرون ملک سے حاصل ہونے والے مبینہ فنڈز سے پارٹی چلانے کے الزامات پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کی، جو اس سے قبل 7 ستمبر کو ملتوی کردی گئی تھی۔

سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے لندن فلیٹ کی تفصیلات کاغذات نامزدگی میں شامل نہ کیے جانے کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فلیٹ پاکستان میں موجود نہیں اور اس کی خریداری کے لیے رقم بھی ملک سے باہر کمائی گئی تھی جس کی وجہ سے اسے کاغذات نامزدگی میں شامل نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ جولائی میں پی ٹی آئی چیف نے عدالت کو بتایا تھا کہ چونکہ لندن فلیٹ کو ٹیکس ریٹرنز میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور انہیں 2000 میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کیا گیا جس کے بعد 2002 کے عام انتخابات کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں شامل کردیا گیا۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران نعیم بخاری سے پی ٹی آئی چیف کی جانب سے 5 لاکھ 60 ہزار پاؤنڈز سابق اہلیہ جمائما سے اُدھار لینے اور ان کی واپسی کی تصدیق سے متعلق کاغذات پیش کرنے کو کہا تھا۔

عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ رقم رائل بینک کے ایک اکاؤنٹس کے ذریعے جمائما کو منتقل کی گئی۔

نعیم بخاری نے عمران خان کا بیان عدالت میں سناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے تحت حلف اٹھایا تھا جہاں ان کا کہنا تھا کہ جمائما نے انہیں 2002 میں بنی گالہ کی جائیداد خریدنے کے لیے رقم فراہم کی جو انہوں نے 2003 میں واپس کردی۔

نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ ایک لاکھ پاؤنڈ کے منی ٹریل کے حوالے سے تفصیلات نہیں مل سکیں، لہذا مذکورہ رقم کی تفصیلات جمع کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔

علاوہ ازیں بینچ نے نیازی سروسز لمیٹڈ (این ایس ایل) اور عمران خان کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے بھی تفصیلات طلب کیں، جو 2015 میں ظاہر کی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے عمران خان کے اکاؤنٹنٹ، جو عدالت میں 04-2001 کے درمیان عمران خان کے اکاؤنٹس سے متعلق تفصیلات بتانے کے لیے پیش ہوئے تھے، نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس یہ معلومات موجود نہیں۔

اس سے قبل جولائی میں نعیم بخاری نے زور دیا تھا کہ ان کے موکل کی جانب سے این ایس ایل کو ظاہر نہ کرنا ایک غلطی ہے، جو جان بوجھ کر نہیں کی گئی۔

تاہم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کے موقف کے حوالے سے کہا کہ عمران خان کو ایک ہزار ڈالر کے اثاثے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرنا چاہیے تھے۔

علاوہ ازیں عدالت نے 75 ہزار پاؤنڈ کے منی ٹریل کی تفصیلات بھی طلب کیں جو 2000 میں لندن سے پاکستان منتقل کیے گئے تھے تاہم عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے تسلیم کیا کہ اس رقم کی منتقلی سے متعلق بینک ریکارڈ کی تفصیلات موجود نہیں۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 28 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

install suchtv android app on google app store