سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ڈاکٹر عاصم کا نام ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے سے متلعق درخواست میں ان کی بیماری کے حوالے سے جمع کرائے گئے میڈیکل سرٹیفکیٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔
سپریم کورٹ میں آج بروز جمعرات ڈاکٹر عاصم کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
اس دوران ڈاکٹر عاصم کی جانب سے ان کے وکیل نے سابق وفاقی وزیر کی بیماری سے متعلق میڈیکل سرٹیفکیٹ عدالت میں جمع کرایا جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عاصم کے چیک اپ کے لیے 9 میڈیکل بورڈ بنائے گئے، ہر بورڈ نے الگ بیماری تجویز کی ہے۔
ڈاکٹر عاصم کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کو ریڑھ کی ہڈی کی بیماری ہے، جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں جبکہ شریک ملزمان کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جا چکی ہے۔
جس پر عدالت نے کہا کہ اس معاملے پر وزارت داخلہ کا موقف جاننا چاہتے ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں ای سی ایل میں نام شامل کرنے کے لیے قانون کا اطلاق یکساں ہوتا ہے کہ نہیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا پسند ناپسند کی بنیاد پر تو نام ای سی ایل میں شامل نہیں کیے جاتے۔
جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے پر وزارت داخلہ سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے اس کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ 19 جون کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سندھ کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور پارٹی رہنما ڈاکٹر عاصم حسین نے ای سی ایل سے اپنا نام نکالنے سے متعلق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
اس سے قبل 10 جون کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں پی پی پی کے رہنما اور ان کی اہلیہ کو فریق بنایا گیا تھا۔
نیب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین طبی بنیادوں پر ضمانت کے حقدار نہیں۔
یاد رہے کہ رواں برس 29 مارچ کو سندھ ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف 479 ارب روپے کی کرپشن کے 2 مقدمات میں 25، 25 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کی تھی۔
ڈاکٹر عاصم حسین کیس—کب کیا ہوا؟
ڈاکٹر عاصم حسین کو 26 اگست 2015 کو اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سندھ کے ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔
27 اگست کو رینجرز نے انہیں دہشت گردوں کے علاج کے الزام میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے 90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا۔
بعد ازاں 29 اگست کو رینجرز نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ڈاکٹر عاصم حسین کی میڈیکل رپورٹ پیش کی تھی جس میں ان کو صحت مند قرار دیا گیا تھا۔
ریمانڈ کے دوران ڈاکٹر عاصم حسین کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھی بیماری کے باعث جیل سے ہسپتال منتقل کرنے کی درخواست دائر کی گئی، تاہم ڈاکٹرز کی رپورٹ میں انھیں صحت مند قرار دیئے جانے کے باعث عدالت نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی تھی۔
بعدازاں ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کرپشن، دہشت گردوں کی مالی معاونت اور ان کے علاج کے الزامات پر کراچی کے نارتھ ناظم آباد تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں انسداد دہشت گردی دفعات بھی شامل کیں گئی تھیں۔
رینجرز کا ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد نیب نے کرپشن کے مختلف الزامات کے تحت ڈاکٹر عاصم حسین کو حراست میں لیا تھا اور ان کے خلاف اربوں روپے کرپشن کے 2 ریفرنسز بھی دائر کیے گئے۔
رواں برس 29 مارچ کو سندھ ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف 479 ارب روپے کی کرپشن کے 2 مقدمات میں 25، 25 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی تھی۔
بعدازاں 31 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے احکامات جاری کیے تھے، جس کے بعد انھیں 19 ماہ بعد رہا کردیا گیا تھا۔
رواں برس 12 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں ڈاکٹر عاصم نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ریڑھ کی ہڈی کی سرجری کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں، لہذا ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے 26 مئی کو اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا اور 5 جون کو فیصلہ سناتے ہوئے ان کی یہ درخواست مسترد کردی تھی۔
ڈاکٹر عاصم کا نام 24 نومبر 2015 کو پہلی مرتبہ نیب کی درخواست پر ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا اور بعدازاں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر 6 اپریل 2017 کو ان کا نام دوبارہ ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا۔