پاناماکیس:وزیر اعظم کی تقریر اعتراف جرم ہے: وکیل جماعت اسلامی

سپریم کورٹ فائل فوٹو سپریم کورٹ

پاناما کیس میں جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے لندن میں اپنے اثاثے چھپائے اور ان کی تقریر اعتراف جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر قانون شہادت کے زمرے میں نہیں آتی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ پاناما کیس کی سماعت کی۔

پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پرجماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے اپنے لندن اثاثے چھپائے، وہ نااہل ہوگئے ہیں۔

جسٹس آصف سیعد کھوسہ نے کہا کہ آپ کا الزام یہ ہے کہ جان بوجھ کر لندن اثاثے چھپائے گئے، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف نے نامزدگی اور گوشواروں میں لندن اثاثوں کا ذکر نہیں کیا،انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر قانون شہادت کے زمرے میں نہیں آتی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسارکیا کہ آپ سمجھتے ہیں عدالت کو183/3 کے مقدمے میں ڈیکلریشن دینے کا اختیارہے؟جس پر توفیق آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ 184/3کے تحت ڈیکلریشن دے سکتی ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نےکہاکہ نواز شریف نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے انکار نہیں کیا،وزیر اعظم نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔

توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا دائرہ اختیار ہے فائنڈنگز ریکارڈ کر کے ڈیکلیریشن جاری کرے،انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے بطور ایم این اے اور بطور وزیراعظم حلف کی پاسداری نہیں کی۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں حلف کی پاسداری نہیں کی اسلیے نااہل قرار دیا جائے،انہوں نے کہا کہ نعیم بخاری نے وزیر اعظم کی تقریر میں تضاد پر دلائل دیے تھے۔توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر اعتراف جرم ہے۔

جماعت اسلامی کےوکیل نے کہا کہ اتفاق فاؤنڈری 1980 میں خسارے میں تھی،وزیر اعظم کے مطابق اتفاق فاونڈری خسارہ ختم کرکے 60 کروڑ منافع میں چلی گئی۔

توفیق آصف نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1985میں اتفاق فاؤنڈری کا دائرہ کئی کمپنیوں تک پہنچ گیا،دبئی میں گلف اسٹیل قائم کی جو 9 ملین ڈالرز میں فروخت ہوئی۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ یہ نہیں بتایا گیا کارروبار کی رقم کہاں سے آئی،انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر کو درست مان لیا جائے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں،تقریر میں کہاگیافلیٹ 1993 سے 1996 میں خریدے گئے۔

جسٹس آصف سیعد کھوسہ نے کہا کہ یہ بات کہاں مانی گئی،اگر ایسا ہوتا تو ہم اتنے دنوں سے یہ کیس کیوں سن رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے ظفرعلی شاہ کیس سے متعلق دلائل واپس لے لیے، جسٹس گلزار نے کہاکہ کیس کو اتنا غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ آپ کے موکل انتہائی قابل احترام ہیں،انہوں نےکہا کہ وکیل کی غلطی کو موکل پر نہیں ڈالنا چاہیے۔

توفیق آصف نےکہاکہ نواز شریف کی اسمبلی تقریر میں حکومتی پالیسی بیان نہیں کی گئی،انہوں نےکہا کہ نوازشریف نےبطور ایم این اے ذاتی الزامات کا جواب دیا۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہاکہ میں نے اتنی بھی غیر سنجیدہ بات نہیں کی تھی،انہوں نےکہا کہ میرا زیادہ انحصار وزیراعظم کی تقریر پرہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ اور66 کے تحت استحقاق الگ چیزیں ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے استثنیٰ نہیں مانگا۔

توفیق آصف نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر اسمبلی کی معمول کی کارروائی نہیں تھی،انہوں نےکہا کہ وزیر اعظم نے اسمبلی میں کوئی پالیسی بیان نہیں دیاجواستحقاق بنتاہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ کیا وزیرا عظم کی تقریر ایجنڈے کا حصہ تھی؟انہوں نےکہا کہ کیا ذاتی الزامات کا جواب دینے کے لیے اسمبلی کا فلور استعمال ہوسکتا ہے۔

install suchtv android app on google app store