سائبر کرائم بل کی ازسرنو جانچ پڑتال

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے سائبرکرائم بل پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ بات کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔

آئی ٹی انڈسٹری کی مشترکہ ایکشن کمیٹی کے خدشات پر توجہ دیتے ہوئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اپنے اراکین سے کہا ہے کہ وہ اس انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر الیکٹرانک جرائم کو روکنے کے بل (پی ای سی بی) 2015ء میں موجود غلطیوں کو درست کریں۔

مذکورہ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر نے اس حوالےسے بتایا کہ یہ بل پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیے جانے کا منتظر ہے۔ آئی ٹی انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈر نے اس حوالے سے اپنے جو خدشات بیان کیے ہیں، انہیں سننے کے بعد ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ اس پر باہم مل کر دوبارہ غور کیا جائے اور اس قانونی مسودے کو عوام کے مفاد میں بنایا جائے۔

جمعہ کے روز انہوں نے سائبر کرائم بل کے ناقدین کو عوامی سماعت کی اجازت میں نرمی ظاہر کی۔ جبکہ اس کمیٹی کے پچھلے چند اجلاسوں کے چیئرمین اس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ یہ بل پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیے جانے کے لیے تیار ہے۔

تاہم حزبِ اختلاف کے اراکین کی متواتر درخواستوں کے بعد انہوں نے اسٹیک ہولڈر کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا آخری موقع دیا ہے۔

آئی ٹی انڈسٹری کی مشترکہ ایکشن کمیٹی کو ابتداء میں پارلیمنٹ کے احاطے میں ہی داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا، لیکن پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کی مداخلت کے بعد انہیں اجازت دی گئی، جو خود چل کر گیٹ تک گئیں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کوئی بنکر نہیں ہے اور کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے مدعو کیے گئے مہمانوں کو داخلے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

چیئرمین سے مشترکہ ایکشن کمیٹی نے اس بات پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اعتراض بھی کیا کہ صحافی تنظیموں کی طرز کے بہت سے اسٹیک ہولڈرز جو اس قانون کی موجودہ حالت سے متاثر ہوسکتے ہیں، انہیں مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

مشترکہ ایکشن کمیٹی کے اراکین کی جانب سے بل کے مسودے کی متعدد شقوں پر اعتراضات کیے، جس کی وجہ سے 90 منٹ سے زائد کی یہ ملاقات تقریباً تین گھنٹے جاری رہی۔

اسٹیک ہولڈر نے ہر ایک شق پر بات کی اور اس بات کی نشاندہی کی کہ انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اس بل کے مسودے میں کیا شامل کیا جانا چاہیے اور کیا ترمیم کرنی اور کسے خارج کردینا چاہیے۔

مشترکہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے بولو بھائی کی فریحہ عزیز نے کہا کہ سائبر کرائم کا یہ بل موجودہ حالت میں آئی ٹی انڈسٹری اور نوجوان پروفیشنل پر ناموافق اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں اقتصادی سرمایہ کاری اور آئین حقوق اور تحفظات کو متاثر کرے گا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی پر زور دیتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ اس بل کے سیکشن 9، 15، 18، 22، 29 کو خارج کردیا جائے، جس کے تحت ٹیکسٹ وصول کنندہ کی رضامندی کے بغیر میسیجنگ اور ای میلز بھیجنا جرم قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے خاص طور پر سیکشن 32 کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے بارے میں مشترکہ ایکشن کمیٹی کو یقین ہے کہ ’’یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، میڈیا کی آزادی سے روکتا ہے، اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو حکومت پر تنقید کی طرز کے ’قابل اعتراض‘ مواد کو بلاک کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

مشترکہ ایکشن کمیٹی کے اراکین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انٹرنیٹ کیفے، دفاتر، یونیورسٹیاں کی طرز کے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو ڈیٹا اسٹور رکھنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے، جس سے ان کے آپریشنل اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری نہیں ہے کہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والے بڑے ادارے پہلے ہی اپنے سسٹمز میں انفارمیشن اکھٹا رکھتے ہیں۔

انٹرنیٹ پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے کنوینئر وہاج السراج نے کمیٹی پر زور دیا کہ آزادانہ تحقیقات کے اختیارات فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے ایک غیرجانبدار ادارے کو منتقل کیا جائے۔

ایک معروف قانونی ماہر بابر ستار نے سائبر کرائم بل 2015ء کے مسودے کی تیاری میں حکومت کو اپنی مدد کی پیشکش کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ قانون ملزم اور اس کی رازداری اور وقار کے حق کا تحفظ نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ ’’اس قانون کی شقیں بہت زیادہ وسیع ہیں اور اس کی زبان میں ابہام کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اسپیمنگ کی طرز کی معمولی کارروائیوں کے ساتھ یہ سزائیں مناسبت نہیں رکھتیں، جسے قانون کے تحت جرم تصور نہیں کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ یہ حقیقی زندگی میں جرم نہیں ہیں۔‘‘

پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے بھی آئین کے آرٹیکل 19 سے متن کی سائبر کرائم بل میں شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کسی رہنمائی کے بغیر اس قانون کی تشرح کیسے کی جائے گی۔

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کی صدر جہان آراء نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ موجودہ مسودہ طلباء اور مہم جو افراد کی ریسرچ اور تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔

پی ٹی آئی کے امجد علی خان ، ایم کیو ایم کے سید علی رضا عابدی اور مسلم لیگ ن کے خسرو بختیار کا خیال تھا کہ اس بل سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونے چاہیے، جبکہ مسلم لیگ ن کے اراکین جو پہلے چاہتے تھے کہ اس مسودے کو پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے، انہوں نے اس کی خرابیاں دور کرنے کے لیے انتظار کرنے پر اعتراض نہیں کیا۔

وزیرمملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمان نے کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے اپنے مؤقف میں نرمی کرنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ کمیٹی کے اراکین اس قانون کی غلطیوں کو درست کرنے پر مزید وقت صرف کریں۔

انوشہ رحمان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے پاس آج اس دستاویز کے 44 صفحات ہیں، یہ کمیٹی اس میں تبدیلی کے لیے ذمہ دار ہے اور اس کو 13 صفحات تک کم کررہی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس بل میں سیکشن 34 وزارت کی جانب سے نہیں بلکہ کمیٹی کے اراکین نے شامل کیا تھا۔

آج پی ٹی اے کو ہائی کورٹ کی جانب سے انٹرنیٹ پر ناگوار سمجھے جانے والے مواد کو بلاک کرنے اور منظم کرنے کے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔

انوشہ رحمان نے کہا کہ سائبر کرائم بل ایسے بے لگام اختیارات پر پابندی عائد کرتا ہے اور عوام خاص طور پر خواتین اور بچوں کو مزید آزادیاں دیتا ہے۔

install suchtv android app on google app store