تحفظ پاکستان آرڈیننس سینیٹ میں پیش، اپوزیشن کا احتجاج

اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود وفاقی حکومت نے تحفظ پاکستان بل 2014 کو ایوان بالا میں پیش کر دیا ہے۔

جمعہ کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ تحفظ پاکستان بل 2014ء قومی اسمبلی کی منظور کردہ صورت میں زیر غور لایا جائے اور تحفظ پاکستان بل 2014ء غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

یاد رہے کہ مذکورہ بل پہلے ہی قومی اسمبلی سے منظور کیا جا چکا ہے۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ انہیں یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ہم نے بل میں تبدیلیاں کی ہیں، بل کا تفصیلی مطالعہ کر کے اس پر رائے دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک لوگوں کو حراست میں رکھنے کی شق کا تعلق ہے تو اسے پہلے سے موجود انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون سے لیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر میاں رضا ربانی نے کہا کہ تحفظ پاکستان بل 2014ء انسانی حقوق سے متصادم ہے لہٰذا حکومت اس پر نظرثانی کرے۔

متحدہ قومی موومنٹ اور عوام نیشنل پارٹی کے سینیٹرز نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل مستقبل میں انسانی حقوق کنونشن سے متصادم ہو گا۔

اے این پی کے پارلیمانی لیڈر حاجی محمد عدیل نے کہا کہ یہ رائیونڈ کا کالا قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی اس بل کی مخالفت کرتے ہیں، بل پر غور کے لیے پورے ایوان کی کمیٹی بنائی جائے۔

ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ یہ بل ہمارے لئے ناقابل قبول ہے، اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔

'تحفظ پاکستان بل پر ایم کیو ایم کے تحفظات ہیں، اس بل کی منظوری کے بعد کسی شخص کو 90 دن کیلئے بغیر کسی وجہ کے بند کیا جا سکے گا جو غلط ہے'۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے نیا قانون بنانے کی ضرورت ہے لیکن اس بل میں بہت سی چیزیں قابل اعتراض ہیں۔ اگر قانون بنانا ہے تو اس پر ہر کسی کا اعتماد ہونا چاہئے اور اس کا مقصد بھی حاصل ہو۔

بعد ازاں چیئرمین نے بل غور کے لیے قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں اس بل کو حزب اختلاف کے شدید احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی سے منظور کر لیا گیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے دیگر عالمی و مقامی اداروں نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔

اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا تھا جہاں درخواست گزار محمود اختر نقوی نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس میں انتظامیہ کو عدلیہ کے اختیارات تفویض کردیے گئے ہیں اور آئین پاکستان سے متصادم ہے۔

تحفظ پاکستان بل کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف مقدمات کے ٹرائل کو تیز کیا جائیگا، دہشتگردی کے مقدمے کے کی تفتیش مشترکہ ٹیم کرے گی اور دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کے لیے خصوصی عدالت بھی قائم ہوں گی جبکہ بل کے تحت سزا یافتہ شخص کو ملک کی کسی بھی جیل میں رکھا جاسکے گا۔

بل میں بتایا گیا ہے کہ مخصوص حالات میں پولیس کو کسی بھی دہشت گرد یا مشتبہ شخص پر گولی چلانے کا اختیار ہو گا جبکہ کسی بھی مشتبہ دہشت گرد کو 90 روز کے لیے حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔

ویب ڈیسک

install suchtv android app on google app store