بلوچستان میں دو سالوں میں چھ ہزار سے زائد آپریشن، سیکڑوں دہشت گرد ہلاک

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں گزشتہ دو سال کے دوران سکیورٹی فورسز نے چھ ہزار سے زائد آپریشن کئے گئے، جس میں سیکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔

یہ بات بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری اعدادوشمار میں بتائی گئی جس کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت دو سال کے دوران بدامنی کے شکار صوبے کے شمالی، جنوبی اور مشرقی اضلاع میں تیرہ سو انسٹھ ، کومبنگ اور خفیہ معلومات کی بنیاد پر پانچ ہزار چھ سو چالیس، کارروائیاں کی گئیں۔

ان کارروائیوں میں پانچ سو باون دہشت گرد ہلاک کئے گئے۔ آپریشن کے دوران تئیس ہزار آٹھ سو پانچ جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔

ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ صوبے میں دو سالوں کے دوران اغوا برائے تاوان کی سینتیس وارداتیں ہوئیں۔

پولیس حکام یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ صوبے میں ستر سے زائد گروہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں گزشتہ سال ایک صوبائی وزیر سردار مصطفیٰ ترین کے بیٹے کو اغوا کیا گیا تھا جو چند ماہ بعد بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد چھوڑ دئیے گئے تھے، پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے والے گروہوں کے خلاف کارروائی کر کے اُن کو اب ختم کردیا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ کی طرف سے گزشتہ دو سالوں کے دوران لسانی و مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کے بائیس واقعات کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ صوبے کے حالات خراب کرنے میں بھارت اور افغانستان کے خفیہ ادارے ملوث ہیں۔

دریں اثنا فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے مشرقی اضلاع سبی اورکوہلو میں کالعدم تنظیم بی آر اے، بی ایل اے اور بی آر جی کے 14 فرارریوں نے قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان کے ضلع سبی اور کوہلو میں مزید 14 فراریوں نے سیکیورٹی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ہتھیار ڈالنے والوں کا تعلق مختلف کالعدم بلوچ تنظیموں سے تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فراریوں نے ہتھیار حکام کے حوالے کرتے ہوئے عہد کیا کہ وہ آئندہ پرامن زندگی گزاریں گے،کسی تخریب کاری میں حصہ نہیں لیں گے اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کریں گے۔

ہتھیار ڈالنے والے فراریوں کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) اور بلوچ ریپبلکن گارڈ (بی آر جی) سے ہے۔ فراریوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ بیرون ملک بیٹھے چند عناصر کے کہنے پر دہشت گردی کی کاروائیاں کررہے تھے۔

اب تک بلوچستان گزشتہ دو سال کے دوران 800 سے زائد فراریوں نے ہتھیار ڈالے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت بلوچستان نے دو برس قبل سیاسی مفاہمتی پالیسی کا آغاز کیا تھا اور ناراض بلوچوں کو پیشکش کی تھی کہ وہ ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہوں اور پر امن زندگی گزاریں۔

ترجمان بلوچستان حکومت انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ حکومتی مفاہمتی پالیسی شروع ہونے کے بعد سے اب تک مختلف کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 800 سے زائد فراری ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 'فراریوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنا ملک و قوم کے لیے اچھا شگون ہے، انیں اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ وہ دشمن کی جنگ لڑ رہے تھے لہٰذا ہم واپس آنے پر ان کا خیر مقدم کرتے ہیں'۔

یکم فروری 2017 کو حکومت بلوچستان نے اعلان کیا تھا کہ مفاہمتی پالیسی کے تحت اب تک بلوچستان میں 800 سے زائد مشتبہ شدت پسندوں نے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

واضح رہے کہ اب تک شدت پسند تنظیموں سے وابستہ رہنے والے سیکڑوں جنگجو کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، خضدار، مکران اور اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں سیکیورٹی و حکومتی عہدے داروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔

جنوری کے آغاز میں کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے اہم کمانڈر بلخ شیر بادینی نے کوئٹہ میں سیکیورٹی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔

ہتھیار ڈالنے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلخ شیر بادینی نے بتایا تھا کہ ’میں بیرونی حمایت یافتہ عناصر کے دھوکے میں آگیا تھا جو بلوچستان میں دہشت گرد سرگرمیاں کراتے تھے‘۔

install suchtv android app on google app store