آگ لگ جائے تو کیا کریں؟

آگ جیسی ناگہانی آفت دیکھتے ہی دیکھتے چیزوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی اہلیت رکھتی ہے حتی کہ براہِ راست جھلسائے بغیر بھی یہ ایسی حدّت اور گھٹن پیدا کردیتی ہے جس سے کسی بھی جاندار کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں کسی بھی عمارت میں لگنے والی آگ کافی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔۔۔ تو ایسے میں فوری طور پر ایسا کیا کِیا جائے کہ مدد آنے تک جان پچائی جا سکے؟

پاکستان میں ہنگامی صورتحال میں سب سے پہلے ردِ عمل دینے والے ادارے ریسکیو 1122 میں آگ بجھانے والے عملے کا کہنا ہے کہ آگ کہاں لگی ہے اس عمارت کی نوعیت اور متاثرین کی عمر سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

لاہور میں ریسکیو 1122 کی ڈرٹ ٹیم (ڈزاسٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم) کے اہلکار احتشام فیروز کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں اپنی چیزوں اور مال و اسباب کے لیے نہ رکیں۔

’زیادہ تر لوگ اکثر اپنا فون اور کوئی دوسری اہم چیز لینے کے لیے واپس چلے جاتے ہیں اور اس آگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔‘

لاہور میں 1122 کے ضلعی ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر احمد رضا کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے عوامی سطح پر یہ شعور ہونا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی نئی جگہ جائیں تو وہاں پر ایمرجنسی کی صورت میں باہر نکلنے کے راستوں سے آگہی حاصل کریں۔

’بالخصوص بچوں کے ہمراہ لوگوں کو ہنگامی صورتحال میں نکلنے میں مشکل ہوتی ہے۔‘

ان کے بقول ’کمرشل مقامات پر عمارتوں کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ آگ سے متعلق تنیہہ کرنے والے آلات کی گاہے بگاہے جانچ کرتے رہیں کیونکہ پانچ چھ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد ان آلات پر دھول جم جاتی ہیں اور ان میں کاربن آلودگئی اور تپش کی نشاندہی کرنے والے سنسنرز ضرورت کے وقت کام نہیں کرتے۔‘

حواس قابو میں رکھیں

ڈاکٹر احمد رضا کا کہنا تھا کہ کسی بھی ایسی صورتحال میں جب آگ لگنے کی صورت میں آپ کسی عمارت کی اوپری منزلوں میں محصور ہوجائیں تو سب سے پہلے اپنے حواس قابو میں رکھیں۔

’اکثر لوگ بدحواس ہو کر یا نیچے کھڑے لوگوں کے کہنے پر نیچے چھلانگ لگا دیتے ہیں جس سے زیادہ نقصان ہو جاتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر نیچے جانے کے راستے مسدود ہو جائیں تو کوشش کریں کہ عمارت کی چھت کی طرف چلے جائیں۔

’کھلی جگہ پر جانے سے صاف ہوا میں سانس لینا آسان ہوتا ہے اور عمارت کے آکسیجن کی کمی اور دھوئیں سے متاثر ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اگر کمرے میں محصور ہو گئے ہیں تو کھڑکی کھول دیں اور اس کے قریب رہیں تاکہ سانس لینا آسان ہو۔‘

پھیلاؤ روکنے اور مدد میں آسانی

آٹھ سال سے فائر فائٹر کے طور پر کام کرنے والے ابصار احمد کا کہنا تھا کہ معمولی آگ سے گھبرا کر لوگ بھاگ جاتے ہیں اور آگ پھیل جاتی ہے ایسے میں کچھ چھوٹے چھوٹے عمل نقصان میں کمی کر سکتے ہیں۔

’سب سے پہلے تو لوگ بجلی کی فراہمی کو معطل کریں کیونکہ بجلی کی تاریں جل کر مزید شارٹ سرکٹ اور کرنٹ لگنے کے واقعات کا سبب بنتی ہیں۔ اکثر ریسکیو اہلکار بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چونکہ ایمرجنسی ایگزٹ کے سائن بورڈ اندھیرے میں چکمنے والے مواد سے بنتے ہیں اس لیے اندھیرے کی پرواہ کیے بغیر اسے منقطع کرنا چاہیے۔ ‘

ابصار احمد کا کہنا تھا کہ آگ لگنے کی صورت میں لفٹس کا استمعال قطعی نہ کریں بلکہ سیڑھیوں کا استمعال کریں۔‘

کیا جسم کو گیلا کر لینا آگ سے بچاؤ میں فائدے مند ہے؟

ڈاکٹر احمد رضا کا کہنا تھا کہ اگر عمارت میں درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے تو خود کو گیلا کر لینے اور پانی پیتے رہنے سے جسم میں پانی کی کمی ہونے کے عمل کو سست کیا جا سکتا ہے جو مدد آنے تک مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

لاہور میں 1122 کے ضلعی ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر احمد رضا کا کہنا تھا کہ آگ اس وقت زیادہ جان لیوا ہوتی ہے جب لوگ سو رہے ہوں کیونکہ آگ نہ بھی پہنچے تو دھوئیں سے اکثر لوگ سوتے سوتے ہی موت کے منہ چلے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا ’کمرے میں دھواں بھر جانے کی صورت میں اس میں شامل زہریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ دماغ کے عمل کو سست کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان سوتے سوتے نیم بے ہوشی اور پھر موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں انسان کو کسی بھی قسم کا ردِ عمل دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ‘

دھواں بھرنے کی صورت میں کپڑا گیلا کر کے منہ پر رکھنے سے سانس لینے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر احمد رضا کے بقول ’گیلے کپڑے یا تولیے سے ایک تو نمی ملتی رہتی ہے اور دوسرا یہ کپڑا فِلٹر کا کام کرتا ہے اور دھوئیں اور کاربن کے ذرات کو سانس کے ساتھ جسم کے اندر نہیں جانے دیتا۔ ‘

دھواں بڑھ جانے کی صورت میں زمین کے زیادہ سے زیادہ قریب رہیں۔

ڈاکٹر احمد رضا کا کہنا تھا ’دھواں اور گرم گیسیں چونکہ ہوا میں بلند سطح پر رہتی ہیں تو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ زمین پر بیٹھے رہیں۔ اور اگر ایک جگہ سے دوسرے جگہ جانا ہے تو بھی یا بیٹھ کر یا رینگ کر جائیں۔ اس طرح زمین کے قریب نسبتاً صاف ہوا میں رہنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ‘

پاکستان میں سکیورٹی کے پیشِ نظر اکثر عمارتوں کی کھڑکیوں پر لوہے کہ حفاظتی جنگلے امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ کا باعث بن جاتے ہیں۔ جنہیں کاٹنے میں وقت لگ جاتا ہے۔

ڈاکٹر احمد رضا کے بقول اگرچہ ایسا کمرشل عمارتوں میں نہیں ہونا چاہیے لیکن سلامتی کے پیشِ نظر ان کے لگائے جانے کو روکا بھی ںہیں جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ریسکیو 1122 کے پاس ایسے آلات موجود ہیں کہ ان جنگلوں کو کاٹ کر لوگوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اب کم از کم لاہور میں ان کے محکمے کے پاس 70 اور 104 میٹر بلند سیڑھیاں موجود ہیں جن کی مدد سے 25 سے 30 منزل عمارت میں پھنسے لوگوں کو باآسانی نکالا جا سکتا ہے۔

install suchtv android app on google app store