ناول نگار ممتاز مفتی کو بچھڑے 19 برس بیت گئے

ناول نگار ممتاز مفتی کو بچھڑے 19 برس بیت گئے فائل فوٹو

معروف افسانہ اور ناول نگار ممتاز مفتی کو ہم سے بچھڑے انیس برس بیت گئے مگر 'علی پور کا ایلی' آج بھی زندہ ہے۔اردو ادب کے معروف ترین ادیب ممتاز مفتی 11 ستمبر 1905 کو ہندوستانی پنجاب کے علاقے بٹالہ میں پیدا ہوئے تاہم انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔

برطانوی دورحکومت میں انھوں نے اسکول کے استاد کی حیثیت سے ملازمت کی اور 1936 میں پہلا افسانہ 'جھکی جھکی آنکھیں' تحریر کیا، جسے پڑھنے والوں نے بے حد پسند کیا۔اس سے تقویت پاتے ہوئے انھوں نے چھوٹے چھوٹے افسانے لکھ کر بطور مصنف اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔

تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے، ممتاز مفتی ابتداء میں تقسیم ہند کے انتہائی مخالف تھے لیکن بعد میں وہ انتہائی محب وطن پاکستانی اور اسلام پسند کے طور پر جانے گئے۔کہا جاتا ہے کہ ان کی ذات میں یہ تبدیلی قدرت اللہ شہاب سے تعلق قائم ہونے کے بعد پیش آئی۔

قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد سے قریبی تعلقات رکھنے کے باوجود وہ بحیثیت ادیب اپنا اچھوتا پن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ممتاز مفتی کی تحاریر کے 13 سے زائد مجموعے شائع ہوئے: جن میں علی پور کا ایلی، لبیک، مفتیانے، ان کہی، تلاش اور الکھ نگری جیسی سدا بہار کتابیں بھی شامل ہیں۔

ان کی فنی خدمات کی اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 1986 میں ستارۂ امتیاز کے اعزاز سے نوازا جبکہ 1989 میں انہیں منشی پریم چند ایوارڈ ملا۔ممتاز مفتی کا انتقال 27 اکتوبر 1995 کو نوے سال کی عمر میں اسلام آباد میں ہوا تاہم آج بھی وہ اپنی کتابوں کی شکل میں قارئین کے دلوں میں زندہ ہیں۔

install suchtv android app on google app store