کراچی میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس جاری

ساتویں عالمی ادبی کانفرنس کے پہلے روز اسٹیج پر دیگر نامور ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ ناول و افسانہ نگار انتظار حسین بھی (دائیں سے دوسرے) نظر آ رہے ہیں ساتویں عالمی ادبی کانفرنس کے پہلے روز اسٹیج پر دیگر نامور ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ ناول و افسانہ نگار انتظار حسین بھی (دائیں سے دوسرے) نظر آ رہے ہیں

آرٹ کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام ساتویں عالمی ادبی کانفرنس جمعرات سولہ اکتوبر سے جاری ہے۔ اس چار روزہ اجتماع میں پڑوسی ممالک بھارت اور ایران سمیت دنیا بھر سے ادیب، دانشور اور شعرا کرام شرکت کر رہے ہیں۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کے سبزہ زار پر منعقدہ افتتاحی تقریب میں ملک کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب ’شامِ شعرِ یاراں‘ کی رونمائی بھی کی گئی۔ ممتاز اداکار اور براڈکاسٹر ضیاء محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کی تحریر کو اپنی آواز سے سجاتے ہوئے مزاح نگاری کے اِس بے تاج بادشاہ کو خراج تحسین پیش کیا۔

معروف شاعر امجد اسلام امجد نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا کہ ’زندگی میں کچھ چیزیں ہیں، جنہیں انسان بڑے فخر کےساتھ پیش کرتا ہے تو یوسفی صاحب کے ساتھ محبت کا چالیس سال پرانا رشتہ ہے‘۔

کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پیرزادہ قاسم کا کہنا تھا کہ عالمی اردو کانفرنس گذشتہ سات برسوں کے دوران دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کا ایک اہم حوالہ بن چکی ہے اور مستقبل میں آنے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ اس روایت کو جاری و ساری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ادب و ثقافت اب ترجیحات میں شامل نہیں رہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہماری ادبی سمجھ بوجھ ختم ہو جانے کا بھی خدشہ ہے۔

مشہور شاعرہ زہرہ نگاہ کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس نے شہر قائد کو نئی پہچان دی ہے:’’پوری دنیا میں ہمارے شہر کراچی کی خبریں خراب ہی خراب جاتی ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اسی شہر میں اتنی بڑی اردو کانفرنس ہو رہی ہے، جس میں بڑے بڑے لوگ شریک ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور مجمعے کو دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘

کانفرس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ادیبوں اور شاعروں نے کانفرنس میں مقالے پڑھے۔ بھارت سے آئے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہٴ اردو کے سربراہ قاضی افضال حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ زبان انسان کی افرادی اور معاشرتی ضرورت ہی نہیں بلکہ ہمارے اظہار و بیان کا بھی اہم ترین ذریعہ ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز ادیب انتظار حسین کا کہنا تھا کہ انہیں پہلی کانفرنس کے بارے میں سن کر تعجب ہوا تھا کہ کراچی جیسے شہر کے ماحول میں یہ ممکن کیسے ہو گا لیکن سات برس سے مسلسل کانفرنس کا انعقاد جاری ہے اور اب یہ کانفرنس لاہور اور اسلام آباد تک جا پہنچی ہے۔

کانفرنس کے منتظم اور آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے کہا کہ زبان کی تہذیب اور اقدار ہوتی ہیں اور ہم نے اردو کی تہذیب اور قدروں کا اجتماع منعقد کیا ہے۔ فیض اور صادقین جیسی شخصیات اردو سے وابستہ رہی ہیں، ہمارا کام اس دور میں ایسے لوگوں کو جمع کرنا ہے اور ان کے ذریعے اپنی تہذیب کو متعارف کرانا ہے۔

کانفرنس کے پہلے روز کا اختتام معروف کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی کی دل موہ لینے والی پرفارمنس پر ہوا۔ لیکن اردو کے دیوانوں کے لیے آئندہ تین دن تک جاری رہنی والی نشستوں میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ دوسرے روز اردو کے جدید ناول اور افسانے، اردو کو درپیش مسائل اور اس کے مستقبل، بیاد رفتگاں، اردو کی نئی بستیاں اور تراجم کی روایت کے حوالے سے اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ صفیہ اختر اور جاوید اختر کے نام ایک شام میں جاوید اختر کے شعری مجموعے لاوا کی تقریب اجراء بھی منعقد کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اردو اور پاکستانی زبانوں کے رشتوں، ذرائع ابلاغ اور زبان اور ترقی پسند تحریک کے اردو ادب پر اثرات کے عنوانات پر مباحثوں کا بھی انعقاد ہو گا۔ تیسرے روز کا اختتام ایک عالمی مشاعرے پر ہو گا جبکہ آخری روز اختتامی تقریب سے پہلے حالی و شبلی کے جشن صد سالہ کے موضوع پر ایک مذاکرہ بھی ہو گا۔

install suchtv android app on google app store