بھارت این ایس جی کے ممبر شپ کا اہل نہیں

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
بھارت این ایس جی کے ممبر شپ کا اہل نہیں فائل فوٹو

بھارت این ایس جی (نیوکلیئر سپلائرز گروپ) کے ممبر شپ اور ایٹمی عدم پھیلاو کے پیمانہ پر پورا نہیں اترتا اور نہ ہی وہ اس گروپ کے قوانین سے مطابقت رکھتا ہے، اگرچہ امریکہ کا کہنا ہے یا بھارت کیلئے بہلاوہ ہے کہ وہ بھارت کو ان قوانین استثنی دے سکتا ہے جس میں وہ بری طرح فیل ہوا ہے، اسے ویانا آسڑ یا اور سئیول جنوبی کوریا کے اجلاسوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس پر امریکہ نے چین پر الزام لگایا کہ اس نے یہ بھارت کی گروپ میں ممبر شپ روکی، جو ابا چین نے کہا کہ یہ آپ ہی ہیں جس  نے یہ پابندی عائد کی تھی کہ جس نے ایٹمی عدم پھیلاو کے معاہدہ پر دستخط نہ کئےہیں وہ اسکا ممبر شپ نہیں بن سکتا ہے ، ہم تو اسی قانون کی پاسداری کر رہے ہیں، روس نے بھی اس پر یہی کہا ہے کہ صرف اکیلے بھارت کو اس ممبر شپ دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا دوسرے ممالک بھی ہیں یعنی پاکستان۔

پاکستان اور بھارت دونوں نے ہی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی درخوست دی تھی ،48رکنی این ایس جی انڈیا کے 1974ء کے ایٹمی دھماکہ کے بعد بنایا  گیا تھا کہ کوئی اور ملک شاید وہ کئی اور ملک پاکستان ہی ہو کہ ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کر سکے، مگر روکاوٹوں کے باوجود پاکستان 1983ءمیں ایٹمی قوت بن گیا، اس کے بعد امریکہ نے بھارت سے تجارت اور اسکی جمع پونجی لوٹنے کیلئے سول ایٹمی معاہدہ کیا اور اسکی بنیاد پر وہ 2008ء کہ رہا ہے کہ بھارت نے آئی اے ای اے کی شرائط 2008ءاور 2009ء میں پوری  کر دی ہیں جسکے بعد اسکو استثنی دیدیا جائے جبکہ یہ درست نہیں ہے، ممبر شپ کے حصول کیلئے یہ شرط ہے کہ جس ملک نے ایٹمی عدم پھیلاو (این پی ٹی)کے معاہدے پر دستخط نہ کئے ہوں وہ ممبر نہیں بن سکتا اور بھارت نے اس معاہدہ پر دستخط نہیں کئے، ایک طرف تو ایٹمی عدم پھیلاو کے معاہدہ پر دستخط کرنے کی بات تو دوسری طرف انڈیا کو اس شرط سے استثنی دینے کا مطالبہ ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہے ۔ انڈیا نے اپنے وعدے بھی پورے نہیں کئے اس لئے اس کو نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے حوالے سے استثنی دینا درست نہیں ہے۔

وعدہ یہ تھا کہ وہ سول ملٹری اور ملٹری ایٹمی سہولتوں اور پروگرام کو مرحلہ وار علیحدہ کر دے گا مگر علیحدگی کا یہ عمل تا حال پورا نہیں ہوا، کئی سو یلین ایٹمی ریکٹرز ، تیز پیداواری ،ری ایکٹرز دوسری سہولتیں عالمی تحفظ کےنظام سے باہر ہیں اور دونوں کے درمیان قریبی روابط ہیں جسکا مطلب یہ ہے کہ بھارت نیوکلیئر ری ایکٹر کا فضلہ ملٹری مقصد کیلئے استعمال کر سکتا ہے یہ وعدہ کی صریحا خلاف ورزی ہے ، بھارت معاہدہ کے تحت اس بات کا پابند تھا کہ وہ رضا کا رانہ طور پر اپنی ایٹمی تنصیبات کو (آئی اے ای اے)کے تحفظ میں دیدیگا مگر اس نے 2009ء کے معاہدہ کے حوالے سے کئی تحفظات سے صرف نظر کیا اور آئی اے ای اے کے تحفظات کو دور نہیں کئے۔ سویلین تنصیبات ایٹمی تحفظات کے دائرے سے باہر کر دیں ، پھر یہ کہ تحفظات صرف عارضی طور پر استعمال کی گئی اور تحٖفظاتی مواد اور عدم تحفظاتی مواد کو گٹھ مڈ کر دیا ہے، تیسرے آئی اے ای اے کا پروٹوکول (اے پی) برائے سویلین سہولتوں کو مکمل کرنا تھا بھارت نے آئی اے ای اے پروٹوکول کو صرف ایٹمی مواد کے اپنے ملک سے ایکسپورٹ تک محدود کر دیا ، بھارت کے خود کے استعمال میں مواد کو اس میں شامل نہیں کیا، بھارت نے خودساختہ ایٹمی مواد کو ٹیسٹ نہ کرنے کا لبادہ اوڑھے رکھا مگر اس نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کئے، پھر ایک طرف امریکہ ایف ایم سی ٹی یعنی ایٹمی مواد پر پابندی پر کام کر رہا ہے اور پاکستان پر دباو ڈال رہا ہے کہ وہ اس معاہدہ پر دستخط کر دے جبکہ بھارت نے ملٹری مقاصد کیلئے ایٹمی مواد کی پیداوار بند نہیں  کی جو معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہےاور امریکہ کو اس پر اعتراض بھی نہیں، اسطرح ثابت ہو جاتا ہے کہ امریکہ امتیازی سلوک کرنے پر تلا ہوا ہے، معاہدہ کی رو سے افزودہ اور مزید کام میں لانے والی ٹیکنالوجی ای این آر کو کسی دوسرے ملک جانے سے روکنا تھا مگر بھارت کی ایکسپورٹ شرائط یا ہدایات میں اس قسم کی روکاوٹ کا فیصلہ موجود نہیں ہےم اسطرح وہ معاہدہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے، معاہدہ کے مطابق بھارت پر لازم تھا کہ ایٹمی مواد اور ٹیکنالوجی کو مربوط انداز میں ایکسپورٹ کنٹرول کرنے کیلئے قوانین وضع کرتا  جو ایم ٹی سی آر  یعنی میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ری جیم اور این ایس جی کے قوانین اور ہدایات کے عین مطابق ہوں مگر وہ مربوط ایکسپورٹ کنٹرول کرنے سے اپنے آپ کو بر ی الذمہ سمجھتا ہے اور وہ ایم ٹی سی آر اور این ایس جی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی طریقہ کار پر عمل در آمد نہیں کر رہا ہے، بھارت 2011ء کا این ایس جی کا وہ فیصلہ بھی نہیں مانتا جو این پی ٹی کی ضرورت ہے، ای این آر کی اور ملک کو ایٹمی مواد فراہم کرنے سے متعلق ہے مزید برآں بھارت کے پاس خود مختار ایٹمی ریگولیٹری اتھارٹی موجود نہیں ہے، جو ایٹمی مواد کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنائے جبکہ پاکستان کے پاس ایسی خود مختار ایٹمی ادارہ موجود ہے جو ایٹمی معاملات پر نظر رکھتا ہے، اگر بھارت کے ایٹمی نظام کو باریک بینی سے دیکھنے کی کوشش کریں اور خصوصا بھارت اور عالمی ایٹمی ایجنسی چھتری 2009ءکو ، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  بھارت نے اپنے 22ایٹمی ری ایکٹروں میں سے 14ایٹمی ری ایکٹرز عالمی تحفظاتی نظام کے اندر رکھے ہیں اور باقی 8اس نظام سے باہرہیں۔  تعجب خیز بات یہ ہے کہ بھارت اس وقت ان 8ری ایکٹروں کو تحفظی نظام میں لائے گا، جب وہ خود فیصلہ کرے گا کہ وہ سول ایٹمی پاور پلانٹ بن چکے ہیں، اگر وہ اسٹرٹیجک حدود میں ہو تو اسکو اس نظام میں شامل نہیں کرے گا جو ایک مذاق کے علاوہ کچھ بھی نہیں اسطرح بھارت کو ہر ممکن طریقہ  سے زیادہ سے زیادہ  ایٹمی مواد جمع کرنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے اور اسکو کسی نظام سے مربوط نہیں  کیا جارہا۔ وہ اپنی غیر محفوظ یا غیر تحفظاتی نظام سے تحفظاتی نظام میں اور وہاں سے پھر غیر تحفظی نظام میں ایٹمی مواد داخل کر سکتا ہے، ایٹمی پھیلاو کے معاملے میں بھی بظاہر وہ مکمل آزاد ہے ، جو ایٹمی عدم پھیلاو معاہدہ کی نفی ہے بھارت نے تیز رفتار پروٹوٹائپ ری ایکٹر بنا لیا ہے وہ اسلحہ سازی کیلئے 140کلو گرام پلو ٹو نیم پر سال بنا سکتا ہے، یہ صرف ایک ایٹمی ری ایکٹر کی بات ہے، اگر ساری ایٹمی ری ایکٹروں کی بات کی جائے تو بھارت پلوٹونیم کی سالانہ پیداواری صلاحیت بہت بڑھ جائے گی جو عالمی امن کے مفاد میں نہیں ہے۔

بیان کئے تجزیے کے مطابق بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کیلئے این پی ٹی کے برابر کے تحفظات کو پورا کرنا چاہیئے تو وہ ممبر شپ کا اہل ہو گا ، اس لئے ضروری ہے کہ بھارت اپنی ایٹمی سہولیات و تنصیبات سارے ایٹمی ری ایکٹرز بشمول تیز رفتار پیداواری پروگرام آئی اے ای اے کے تحفظ میں دے،، بھارت کو یہ عہد کرنا ہو گا کہ وہ مستقبل میں بجلی کی پیداواری یونٹوں اور ری ایکٹرز اور سول سہولتوں کو آئی اے ای اے کے تحفظ میں دے گا ۔ تحفظات مستقل بنیادوں پر ہونا چاہیئے، عارضی طور پر ایٹمی پیداوار یونٹوں کو آئی اے ای اے  کے تحفظ دینے کو واپس لینا چاہیئے، غیر ممالک سے حاصل کیا ہوا ایٹمی مواد ہمیشہ عالمی تحفظات کے دائرے میں رہنا چاہیئے ، تمام ایٹمی مواد محفوظ قوانین کے تحت رہیں اور یہ ایٹمی مواد کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہ ہوں جس کیلئے اسکی اجازت دی گئی ہو، تحفظ میں رہنے والا اور تحفظ میں نہ رہنے والا مواد کی استثنی واپس لیا جائے، یہ استثنی بھی واپس لیا جائے کہ غیر تحفظاتی مواد سے ملایا جا سکتا ہے ، سول ایٹمی مواد کے معاملے میں زیادہ سخت قوانین بنانے چاہئیں ، بھارت کو اپنے ایکسپورٹ کنٹرول گائیڈ لائن کو ایکسپورٹ پروگرام میں نظر آنا چاہیئے اور اسکو یہ عہد کرنا چاہیئے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں یہ ایٹمی مواد نہیں دے گا، بھارت باقاعدہ طور پر یہ عہد کرے کہ وہ تخفیف اسلحہ معاہدہ پر عمل کرے گا،ڈیس آرمیمنٹ  آڑٹیکل   چھ  اوبلیگیشن این پی ٹی یہ تمام تحفظات نئے نہیں ہیں مگر اس خلا کو پورا کرتے ہیں جو اس کو نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے کیلئے ضروری ہیں جبکہ پاکستان ان شرائط کو تقریبا پورا کرتا ہے ،

 

install suchtv android app on google app store