قومی اداروں پر الزام تراشی سے دشمن مضبوط ہوگا

سانحہ کوئٹہ سانحہ کوئٹہ

سانحہ کوئٹہ کے بعد یہ سوال تواتر کے ساتھ پوچھا جارہا کہ کیا نیشنل ایکشن پلان ناکام ہوچکا، اگر ایسا ہے تو پھر اس کا زمہ دار کون ہے۔ 16دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول میں قومی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے بعد ملکی نمایاں سیاسی ومذہبی قوتوں نے اتفاق رائے سے 20 نکات کا حامل ایسا منصوبہ منظور کیا جس بارے اعلانیہ دعوی کیا گیا کہ اس پر عمل درآمد کی صورت میں دہشت گردی وانتہاپسندی کو جڑ سے اکھاڈ پھینک دیا جائیگا۔

وفاقی حکومت نے اس پلان کو مثالی قرار دیا تو صوبائی قیادت بھی آگے بڑھ کر مملکت خداداد میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی پیشنگوئی کرتی رہی مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔ عام تاثر یہی ہے کہ سیاست دانوں کی اکثریت قومی ایکشن پلان پر اخلاص سے عمل درآمد کرنے کو تیار نہیں جس کی بنیادی وجہ ان کے کلیدی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ بادی النظر میں یہی وہ نقطہ ہے جسے قائد حزب اختلاف نے کوئٹہ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کھل کر بیان کیا۔ سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے جس کی زمہ دار وزارت داخلہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے اس اہم منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت سے ہر ممکن تعاون کیا مگر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بہت سے تنازعات کھڑے کردیے۔ پاکستان پیلزپارٹی کے جہاندہ لیڈر نے بھی کوئٹہ میں بڑی تعداد میں وکلاء کی شہادت کو ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا۔ ‘‘

صوبائی دارلحکومت میں 8 اگست کو ظلم وبربریت کا جو بازار گرم ہوا اسے سرکاری اداروں کی اجتماعی ناکامی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔سید خورشید شاہ کا خفیہ اداروں کو غفلت کا مرتکب قرار دینا حیرت انگیز ہے۔ قبل ازیں پختوانخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیرمین محمود خان اچکزئی اور جمیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی سانحہ کوئٹہ پر قومی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا چکے ۔ اس ضمن میں محمود خان اچکزئی دیگر ناقدین کے برعکس منفرد موقف کے ساتھ سامنے آئے کہ بلوچستان میں قتل وغارت گری کی کاروائیوں میں ’’را ‘‘ ملوث نہیں۔

سیاسی رہنماوں کا ملک کے خفیہ اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھانا حیرت انگیز نہ سمجھا جاتا اگر یہ قوائد ضوابط کے دائرے میں ہوتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان حالات جنگ میں ہے۔ لسانی ، سیاسی اور مذہبی دہشت گرد آئے روز کہیں نہ کہیں عام شہریوں ، اہم شخصیات یا سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنا کر خوف وہراس کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ۔ پاکستان اپنی تاریخ کی بدترین جنگ لڑرہا جس میں دشمن اور دوست کا فرق کرنا مشکل ہوچکا۔ اس لڑائی میں ملک کا شائد ہی کوئی شعبہ ایسا بچا ہو جو متاثر نہ ہوا۔ ٹھیک کہا گیا کہ جنگ فوج نہیں قوم لڑا کرتی ہے تو پھر سوال ہے کیا بحثیثت قوم ہم اس پچیدہ محاز پر سرخرو ہونے کے لیے تیار ہیں جواب یقیناًاثبات میں نہیں۔یہ اعتراض قابل غور ہے کہ ہزاروں جانیں قربان کیے جانے کے باوجود اہل اقتدار مصلحتوں کا شکار ہیں۔ آئی ڈی پیز کی واپسی کا معاملہ ہو یا وفاق سمیت چاروں صوبوں کی پولیس کو جدید تربیت اور سازوسامان سے لیس کرنا، ہر کہیں زمہ دار لعیت ولعل سے کام لیتے دکھائی دیے۔ قوم کے درد دل رکھنے والے اہل فکر ونظر سالوں سے دست بستہ تقاضا کررہے کہ اہل اقتدار اپنی ترجیحات درست کریں یعنی اب شہریوں کی جان ومال کا تحفظ کرنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لائے بغیر بات نہیں بنے والی۔ میٹرو ہو یا اورنج ٹرین سب ہی منصوبوں کی افادیت سے انکار نہیں مگر ان سے کہیں بڑھ کر جو مسائل منہ کھولے موجود ہیں ان کی جانب متوجہ ہونا ہوگا۔ ایک خیال یہ ہے کہ بعض مخصوص سیاست دان طے شدہ منصوبہ کے تحت دفاعی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے۔ ان حضرات کی غالب اکثریت باخوبی جانتی ہے کہ دہشت گردی ختم کرنا محض فوج کا کام نہیں۔ عصر حاضر میں جہاں جہاں ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں پر کامیابی سے قابو پاگیا وہاں پولیس کا کردار کلیدی نوعیت کا رہا۔ یہ تجزیہ غلط نہیں جب تک سیاسی قیادت اپنی زمہ داریاں اخلاص اور سنجیدیگی سے ادا نہیں کریں گے کشت وخون کا یہ کھیل نہیں بند ہونے والا۔

حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو آگے بڑھنا ہوگا۔ اسے ایک طرف ان قابل اعمتاد اتحادیوں کو روکنا چاہے جو واضح طور پر سول حکومت اورعکسری اداروں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ موجودہ صورت حال پر قابو پانے کا آزمودہ طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارلمینٹ کا ان کمیرہ سیشن طلب کرکے زمہ دار اداروں اور اراکین اسمبلی کے درمیان براہ راست گفت وشنید کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ کسی کو شک وشعبہ نہیں ہونا چاہے قوم کو منعظم اور طاقتور دشمن کا سامنا ہے جو اکثر وبیشتر اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ٹھرا۔ باہم دست وگربیاں ہونا ہم میں سے کس کس کو فائدہ دے گا یقین سے نہیں کہا جاسکتا البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنا چہرے کا دشمن یقیناًخسارے میں نہیں رہیگا۔ ہزاروں جانوں کی قربانی کے باوجود اس سچائی تک تو ہم کو پہنچ جانا چاہے کہ ایک دوسرے کے ہم خیر خواہ یا بدخواہ ہوسکتے ہیں مگر سفاک مسلح گروہ کے لیے ہم سب محض ایک ہدف ہیں جسے وہ کبھی بھی کہیں بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

install suchtv android app on google app store