قائد کا پاکستان ۔۔۔ خدوخال ۔۔۔ قائد کے بیانات کی روشنی میں

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
قائداعظم قائداعظم

لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ بلاشبہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا مومن کے خمیر میں شامل ہے۔

قائداعظم ایسی جمہوریت چاہتے تھے جو شورائی ہو اور اس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہو وہ اسلام کے فدائی تھےاسلام سے آگاہ تھے اور اسلام کیلئے عملی تجربہ گاہ پاکستان کو بنانا چاہتے تھے ۔اس لیے آپ آزادی سے پہلے کے قائد کےبیانات پڑھیں اور پھر بعد کے بیانات کو پڑھیں جو بڑے واضح ہیں ۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ کاکیسا پاکستان چاہتے تھے۔

۱۰ جنوری ۱۹۳۹ء پٹنہ میں خطاب میں آپ نے فرمایا:

جب ہم اسلام کی بات کرتےہیں توبہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے،خاص طورپر ہندو وں کوـ جب ہم کہتےہیں کہ یہ پرچم اسلام کاپرچم ہےتو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں لا رہے ہیں۔

یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جس پرہمیں فخر ہے۔ اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ فراہم کرتا ہے۔

یہ محض ایک مذہب نہیں ہے،بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اورسیاست سب شامل ہیں۔اس میں وہ تمام امور شامل ہیں جن کاصبح سے شام تک کسی انسان سے واسطہ پڑتا ہے۔جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں توہم اس کو جامع لفظ کے طور پر لیتےہیں۔

۲۲ مارچ ۱۹۴۰ء انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں اجلاس سےلاہورمیں خطاب:

اسلام کےخادموں کی حیثیت سے آگے بڑھو! اور لوگوں کومعاشی، تعلیمی اور سیاسی، ہر لحاظ سے منظم کر دو۔مجھےیقین ہے کہ آپ لوگ ایک ایسی طاقت بنوگےجسے ہر کوئی تسلیم کرے گا۔

10ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا:

ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے ۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن ِکریم کو غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی۔

1947ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ:

میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں۔

تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا:

وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدیاں قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے ۔

ہم مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے۔

30جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے آپ نے فرمایا:

میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔

مسلمانوں کی آزادی ، تنظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک سے ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا۔

قائد کا یہ بیان اس بات پر دلیل ہے کہ آپؒ سچے اور پکے مسلمان تھے۔ اپنے رب پر آپ کو یقینِ محکم تھا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ تھے۔ اپنے مسلمان ہونے پر یقینِ کامل رکھتے تھے۔ اور اُنہیں یہ بھی یقین تھا کہ انہوں کے جو کام مسلمانوں کے لیے کیا اس میں اللہ کی رضا شامل ہے۔

خود غرض اشرافیہ نے قائد کے بیان کردہ اصولوں کو تہہ و بالا کیا۔۔نظر انداز کیا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے قوانین بنائے 1973 ء کا آئین قائد کے افکار کا ترجمان ہےاور اس میں تمام وہ نکات موجود ہیں جو قائد نے اسلامی پاکستان کے لیے سوچے اور اپنی تقاریر میں ان کا اظہار کیا۔

افسوس کہ اس آئین کی روشنی میں قوانین آج تک پوری طرح مرتب نہ ہوسکے۔اور جوقوانین مرتب ہوئے اس میں قرآن و سنت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔بلکہ بہت سارے قوانین ایسے بنائے گئے کہ ان سے چند افراد کے ذاتی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ پھر جو قوانین بنے ان پر عملدرآمد نہ ہوا۔۔ اگر عملدر آمد ہوا تو غریب اور بے سہارا پر ۔با اثر افراد قانون کی گرفت سے آزاد رہے ۔

صد افسوس69 سال بعد جب ہم پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قائداعظم کا پاکستان نہ بن سکا ۔غربت ہے ۔۔بے روز گاری ہے ۔خیانت ہے ۔جہالت ہے ۔بنیادی صحت کی سہولیات موجود نہیں اسلامی بنیادیں ناپید ہیں ۔اقراباء پروری ہے ۔میرٹ موجود نہیں ۔حُب الوطنی کے جذبے سرد مہری کا شکار ہیں۔منافقت ہے ۔اتحاد موجود نہیں۔تنظیم کا فقدان ہے۔ یقینِ محکم متزلزل ہے۔لا قا نونیت ہے ۔

امن و امان تباہ ہے ۔اپنا کام دوسرے پر ڈالنے کی روایت عام ہے ۔۔ فرائض انجام نہ دینا عام وطیرہ بن چکا ہے۔حقوق با اثر افراد کیلئے ہیں ۔۔غریب اور بے سہارا وعوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں ۔ عوام کو بنیادی ریاستی حقوق بھی مہیا نہیں ۔

گیارہ اگست کی تقریر کے بعض اقتباسات کو لیکر قائد کے افکار و نظریات کی غلط تشریح کرنایقینا ً قائدکی روح کو تڑپا دیتی ہو گی ۔ آپؒ نے اسلام، پاکستان اور پاکستانیت کی بات کی نہ کہ مُلا یا مُلایت کی۔

آپ نے ایک سچے پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اپنے افکار عوام تک پہنچائے نہ کہ مذہب یا فرقے کی تقسیم کر کے۔۔ آپ نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں فرمایا۔

آپ آزاد ہیں، آپ کو پوری آزادی ہے کہ اپنی اپنی مساجد کا رُخ کریں ۔۔آپ مکمّل آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں۔۔یا پاکستان کی ریاست میں جو بھی آپ کی عبادت گاہیں ہیں ان میں آزادی سے جائیں۔ آپ کا کوئی بھی مذہب، ذات یامسلک ہو سکتا ہے۔ ریاست کے امور کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

کیا قائد کے یہ افکا ر مدینہ کی ریاست کے قوانین سے مماثلت نہیں رکھتے جو سرورِانبیا آقا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضع فرمائے تھے۔؟ کیا یہ اسلام کی روش نہیں کہ وہ تمام عقائد، مذاہب اور اقلیتوں کا احترام کرتا ہے۔

کیا اسلام کے علاوہ کوئی اور ایسا لبرل دین ہے؟؟؟ اور کیا قائد اعظم جیسے عظیم رہنما کے فرمودات اور خیالات کو غلط رنگ دینا قائد کے افکار و نظریات کی غلط توجہیہ نہیں ۔۔؟

قائد کے بیانات قرآن و سنت سے اخذ شدہ ہیں۔ آپ اسلام کے حقیقی تصور کو پاک سر زمین میں عملی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ اسلام کی آفاقی اور ہمہ گیر سوچ کی ترجمانی کرتے تھے۔

جس میں تعصب، تنگ نظری، محدودیت، انائیت، خود محوری، جبر و کراہ کی گنجائش نہیں۔ آپ کے سارے بیانات آج بھی تازہ ہیں جو کہ کبھی بھی پرانے نہ ہوں گے کیونکہ یہ حقیقی اسلام کی ترجمانی کرتے ہیں۔

ہم مایوس نہیں ۔محبانِ وطن موجود ہیں ۔۔ نئی نسل بیدار ہے اور سب امیدیں ان پر ٹِکی ہیں۔ یہاں میں یہ بات پرملا کہتا ہوں کہ سیاستدانوں پر بہت زیادہ تنقید ہو تی ہے اس کی وجہ واضح ہے کہ وہ قا ئد اعظم کے افکار و نظریات کے محافظ ہیں اور وہ ہی قوانین بنانے کے ذمہ دار ہیں ۔

ان قوانین پر عمل کرو انے کےلیے عوام ان کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ ان کی نیابت میں ایوان میں جائیں اور اس ملک کی حفاظت کریں، امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ، اور عوام کے مفادات کے لیے کام کریں، قران و سنت کی روشنی میں قوانین تشکیل دیں ، ملک کو ترقی یافتہ و باوقار بنائیں۔ اس پاکستان کو قائد ا عظم کا پاکستان بنائیں ۔ جو کمزوریا ں ہیں ان کو دور کریں ، جب عوام کو ان کے حقوق نہیں ملتے اور ان کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو پھر سیاستدانوں پر اعتراضات و تنقیدکرنا ان کا حق ہے۔

سیاستدانوں کو اپنے رویے بدلنے ہو نگے۔۔ اس ملک کی بنیاد لَااللہ اِلاللہ پر قائم ہے۔ قائد اعظم نعروں کی سیاست نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان نے نعروں میں پاکستان کا مطلب کیا لا اِللہ اِلللہ تھا۔ وہ تو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا خطہِ زمین حاصل کر رہے تھے جو اسلام کے نفاذ کے لیے عملی تجربہ گاہ بنے، اس ملک کی بنیا داور خمیر میں اسلام ، قرآن و سنت ، شورائیت، جمہوریت اور احترامِ آدمیت موجود ہے۔ اس ملک نے ماضی کی خیانتوں کے باوجود ترقی کی ہے، ادارے بنے ہیں، مثبت کام ہوئے ہیں۔

اگر یہ سب نہ ہوتا تو سوچیں کہ یہ ملک کہاں کھڑا ہوتا۔۔! تمام پاکستانیوں کے ریاستی حقوق برابرہیں۔ یہ ریاست لسان ،مذہب، فرقہ اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالا تر اسلام کے اصولوں پر قائم ہے۔۔ ان اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔

لہذا اہل وطن اپنا شعور بیدار رکھیں اور صراطِ مستقیم پر قائم رہیں ۔ اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ وہ سارے ملک کو محفوظ رکھے اور اس ملک کی حفاظت کرنے والی تمام مخلص قوتوں، دفاعی ، انتظامی ، مقننہ ، عدلیہ جیسے تمام اداروں کو ہمت و قوت دے کہ اپنے وطن کے دشمنوں پر نظر رکھیں اور سب اپنی اپنی حیثیت اور دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے میں اپنا بھر پور عملی کردار ادا کریں ۔

 

install suchtv android app on google app store