کوئی۔۔۔۔!!

کوئی۔۔۔۔!! فائل فوٹو

کوئٹہ کی سرد ہوائیں یوں بغل گیر تھیں جیسے خوش آمدید کے لیے آئیں ہوں۔ میں نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور منزل کی جانب رخ کیا۔ جس شہر کی ہوائیں اِس قدر ملنسار ہوںوہاں کے باسیوں کا کیا عالم ہوگا 2012 کے اوائل میں یہ میرا بلوچستان کا پہلا سفر تھا ۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی کہ ایک دل خراش آواز نے چونکا دیا۔ جہاں سے ہم ڈیڑھ  منٹ پہلے گزرے وہاں دھماکہ ہو چکا تھا۔ میں نے جھرجھری لے کر جنت کی حوروں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مجھ سے بغل گیر اور میزبانی کی دعوت دئیے بنا ہی جنت  واپسی کی راہ لی۔

کوئٹہ ہی نہیں پورا بلوچستان کوئی عام خطہِ یا زمین کا ٹکڑا نہیں۔ اِس سر زمین پر گھومتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ خطہ فضاؤں، دریاوں،پہاڑوں اور زمین میں بیش بہا رازِ کائنات و زیست سمیٹے ہے۔ ایسے راز جو منکشف ہوں  تو شاید کائنات جھوم اُٹھے۔

اِس کے بعد جب بھی جانا ہوا، ہر بار سے زیادہ محبت،احترام اور عزت ملی۔ بلوچستان کے لوگ بھی پرُاسرار طبعیت کے حامل ہیں۔ دیکھنے میں سخت مزاج ،کھردرے رویے مگر اصل میں نرم دل مہربان اور روایات سے منسلک ۔مختصراِِ یہ کہ جب بھی کوئٹہ یا بلوچستان جانا ہوا واپسی پر اُداسی محسوس ہوئی جیسے کوئی کسی اپنے سے بچھڑتاہے۔

ایک عزیز گذشتہ کوئٹہ دھماکے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ اتنے وکیلوں کو جمع ہونے کی ضرورت کیا تھی۔۔؟ ایک اُداس مسکراہٹ نے میرا احاطہ کرلیا ۔ضرورت ۔۔۔!!! وہ ایسی سرزمیں ہے جہاں بیشتر لوگ ضرورت نہیں، محبت اور احساس پر تعلق استوار کرتے ہیں۔ کیسے کیسے ذہین، محنتی اور ملک کا اثاثہ وکلا صرف ایک جاہل سوچ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ کیسی رشتہ داری تھی کہ اپنے صدر کو موت کے بعد بھی اکیلا نہ چھوڑا۔یہ کیسا رشتہ تھاکہ اپنے بھائی کو اگلی دنیا میں بھی تنہا نہ چھوڑا۔ غالب نے کہا؛

کیسی صورتیں ہوں گی کہ خاک میں پنہاں ہوگئیں۔

جسم ملک کی قوم اتنی غیور ہو کہ اپنے پیاروں کی خون میں لت پت لاش دیکھنے کے بعد، زخموں سے چوراسپتال کے  بستر پر پڑے ،اپنے وجود پر لگے بے گناہ گھاو سہلاتے ہوئے اپنے  وزیراعظم کا ہاتھ پکڑ کر کہیں کے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ مٹھی بھر عناصر ہیں جو ہمیں کمزور کر رہے ہیں۔ ہمارے عزم جوان ہیں ہم شانہ بشانہ ہیں ،اُس قوم کے وزیراعظم کا سینہ فخروہمت سے بلند ہونا چاہئے نہ کہ  چہرہ مزید  پیلا۔

افسوس کہ ہم اپنا اثاثہ  چند بیمار سوچوں کی وجہ سے کھوتے جارہے ہیں۔ وزیراعظم کی کل کی تقریر سے مجھ نا چیز کی مایوسی تو کجا اُس مرد مومن کا دل کس قدر دُکھا ہوگا جوذہنی و جسمانی زخموں سے چور اپنی ہمت کو یک جا کر کے  اس گھر کے بڑے کو دلاسے دے رہا تھا۔ اور گھر کا بڑا۔۔۔۔!! کبھی کبھی کسی کے منہ سے نکلا جملہ اسی کی حالت زارکی عکاسی ہوتاہے۔ جی ہاں۔ بالکل۔ کوئی شرم ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کوئی۔۔۔۔۔۔!

(مہر)

install suchtv android app on google app store