چین کے گوشہ نشین ’جنت کے راستے پر‘

چین میں تیز تر اقتصادی ترقی اور بڑے شہروں کی گہما گہمی نے کروڑوں افراد کے لیے معیاری زندگی کی راہ کھول رکھی ہے۔ تاہم چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے شہروں کی چکا چوند روشنیاں باعثِ اُداسی ہیں۔

اس اُداسی کا حل انہوں نے گوشہ نشینی میں نکالا ہے۔ وہ دُور دراز پہاڑوں میں جا بسے ہیں جہاں انہوں نے خوشی کا راز پا لیا ہے۔ شہروں کی روشنیوں سے دُور ان گوشہ نشینوں نے اپنا رشتہ قدیم روایات سے جوڑ لیا ہے۔ چین کے وسطی علاقے میں ژونگنان کے دُور دراز پہاڑوں میں میں ایسے لوگوں کی سینکڑوں جھونپڑیاں قائم ہیں۔

ایسے ہی گوشہ نشینوں میں سے ایک ماسٹر ہواُو ہیں جو ایک ايسے پہاڑ پر جا بسے، جہاں نہ بجلی ہے اور نہ ہی جدید دَور کی کوئی اور سہولت۔ وہ بیشتر اوقات گوبھی کھا کر ہی گزارا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے خوش رہنے کی ترکیب ڈھونڈ نکالی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماسٹر ہواُو کا کہنا ہے: ’’اس زمین پر رہنے کے لیے انسان کے پاس خوشی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘

اس کے برعکس ماسٹر ہواُو کا یہ بھی کہنا ہے: ’’ژونگنان پہاڑوں میں ایک جادُو ہے۔‘‘

وہ تقریباﹰ ایک دہائی قبل اس علاقے میں جا بسے تھے۔ بیشتر اوقات وہ ایک سیاہ چوغے میں ملبوس رہتے ہیں۔ وہ جوئے کے ليے مشہور شہر مکاؤ کے قریب ایک ساحلی شہر ژوہائی میں پلے بڑھے تھے۔ تاہم اب ان کے شب و روز گیان و دھیان میں گزرتے ہیں۔ یہ سلسلہ صرف لکڑیاں کاٹنے اور کھانا پکانے کے لیے ہی ٹُوٹتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’’شہروں میں زندگی بے آرام ہے۔ لیکن یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کو دِلی خوشی مل سکتی ہے۔ اب میں اپنی تنہائی میں خوش ہوں۔‘‘

اس علاقے میں سردیوں میں درجہ حرارت منفی بیس ڈگری سینٹی گریڈ تک جا سکتا ہے جبکہ پتھروں کے نیچے سے کبھی بھی خطرناک سانپ نمودار ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود پہاڑوں کی چوٹیوں میں آبادی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ مادہ پرستی سے بڑھتا ہوا عدم اطمینان ہے۔

ماسٹر ہواُو چالیس برس سے اُوپر کے دکھائی دیتے ہیں تاہم تاؤمت کے پیرو کبھی اپنی عمر ظاہر نہیں کرتے۔ حال ہی میں دو نوجوان بھی ان کی شاگردی میں آئے ہیں۔ ان میں سےا یک چھبیس سالہ وانگ گاؤفینگ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک سال قبل چین کے محکمہ ریلوے میں نوکری چھوڑ دی تھی جہاں وہ ایک انتظامی عہدے پر فائز تھے۔

گاؤفینگ کہتے ہیں: ’’ٹی وی دیکھنے اور ویڈیو گیمز کھیلنے سے ایک عارضی خوشی ملتی ہے، نشے کی طرح۔ اس طرح کی خوشی جلد ہی ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔‘‘

آج کے ان گوشہ نشینوں کا طرزِ زندگی نیا نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک تاریخی راستے پر چل رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خاموش طبیعت کے لوگ تین ہزار برس پہلے بھی پہاڑوں میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔

تاؤمت میگزین کے بانی ژانگ جین فینگ کہتے ہیں: ’’گوشہ نشین ایک سیاسی کردار ادا کرتے ہیں، وہ معاشرے کو آگے بڑھاتے ہیں اور قدیم نظریات کو قائم رکھتے ہیں۔‘‘

تاہم کمیونسٹ پارٹی نے 1949ء میں اقتدار میں آنے کے بعد گوشہ نشینوں کا یہ سیاسی کردار ختم کر دیا تھا۔

install suchtv android app on google app store